دو سو سال سے زیادہ عرصہ قبل واٹر لو میں نپولین کی شکست کے بعد اس مشہور میدان جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی ہڈیاں بلجئیم کے محققین اور ماہرین کے لیے بدستور ایک معمہ بنی ہوئی ہیں جنہیں وہ تاریخ کے اس لمحے میں جھانکنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔
ایسے ہی ایک تاریخ دان برنارڈ ولکن ہیں۔ اپنے ہاتھوں میں دو انسانی کھوپڑیاں اور تین کولہے کی ہڈیاں تھامے ایک فرانزک پیتھالوجسٹ کی میز کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے کہا کہ ا تنی ساری ہڈیاں - یہ واقعی غیر معمولی بات ہے ۔
وہ مشرقی بیلجیئم کے علاقے لیج میں واقع فرانزک میڈیسن انسٹی ٹیوٹ کے ایک پوسٹ مارٹم روم میں کھڑے تھے جہاں انسانی ڈھانچوں کی باقیات پر ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ فوجی کن علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
برسلز سے 20 کلومیٹر جنوب میں واقع واٹر لو کے مقام پر ہونے والی جنگ میں یورپ کے نصف درجن ملکوں کے فوجی شامل تھے ۔
18 جون 1815 کے اس مسلح تصادم نے یورپ کو فتح کرنے اور ایک عظیم سلطنت قائم کرنےکے نپولین بونا پارٹ کے عزائم کا خاتمہ کر دیا اور اس کے نتیجے میں تقریباً 20,000 فوجی ہلاک ہوئے تھے ۔
اس کے بعد سے مورخین کی ایک بڑی تعداد اس جنگ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی رہی ہے ، اور جینیاتی، طبی اور اسکیننگ کے شعبوں میں پیش رفت کے ساتھ محققین اب زمین میں دفن باقیات سے ماضی کے اوراق کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔
ان میں سے کچھ باقیات آثار قدیمہ کی کھدائی کے ذریعے برآمد ہوئی ہیں، جیسا کہ پچھلے سال کی وہ کھدائی جس نے ایک ڈھانچے کی تشکیل نو کی اجازت دی تھی جو برطانوی ڈیوک آف ویلنگٹن کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال سے کچھ ہی فاصلےسے ملا تھا۔
لیکن ولکن جن ہڈیوں پر ریسر چ کر رہے ہیں وہ ایک اور ذریعےسے منظر عام پر آئی تھیں ۔
اے ایف پی کے مطابق تاریخ دان ولکن نے، جو بیلجیئم کی حکومت کے تاریخی آثار قدیمہ کے لیے کام کرتے ہیں، بتایا کہ انہوں نے پچھلے سال کے آخر میں ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد ایک ادھیڑ عمرشخص ان ے ملنے آیا اور کہا مسٹر ولکن، میرےگھر کی ایک ایٹک میں پروشا کے باشندوں کی کچھ باقیات ہیں ۔ولکن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے مجھے اپنے فون پر تصاویر دکھائیں اور مجھے بتایا کہ کسی نے اسے یہ ہڈیاں دی تھیں تاکہ وہ انہیں نمائش میں رکھ سکے لیکن اس نے اخلاقی بنیادوں پر ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
وہ ہڈیاں اس وقت تک پوشیدہ رہیں جب تک اس شخص نے ولکن سے مل کر اس بارے میں آگاہ نہیں کیا جس کا خیال تھا کہ ولکن ان کا تجزیہ کر سکتےہیں اور انہیں ایک مناسب پرسکون جگہ دے سکتے ہیں ۔
اس ادھیڑ عمر شخص کے مطابق ان ہڈیوں میں جو پرشیا کے کسی فوجی کی تھیں، سب سے زیادہ دلچسپی کا حامل ایک دایاں پیر تھا جس کی انگلیوں کی تقریباً تمام ہڈیاں موجودتھیں ۔
یونیورسٹی لبرے ڈی برکسیلیس کے ایک مشہور ماہر بشریات میتھیلڈ ڈومس جو اس ریسرچ میں شامل تھے ، کہتے ہیں کہ اتنے اچھے طریقے سے محفوظ ایک پیر شاز و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے کیوں کہ عام طور پر کناروں کی چھوٹی ہڈیاں زمین میں دھنس کر غائب ہو جاتی ہیں ۔
جہاں تک ان ہڈیوں کو پروشا سلطنت سے منسوب کرنے کا تعلق ہے تو ماہرین اس بارے میں محتاط ہیں ۔ولکن نے بتایا کہ جس جگہ سے یہ ملی ہیں وہ پلینسونائٹ کا ایک گاؤں تھا جہاں پروشیا اور نپولین کے فوجیوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی تھی جس سے یہ امکان پیدا ہو تا ہے کہ وہ باقیات ان فرانسیسی فوجیو ں کی ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان ہڈیوں کے درمیان پائے جانے والے بوٹوں اور دھاتی کلپس سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ انہوں نے جرمنی کی طرف سے فرانسیسیوں کے خلاف لڑنے والے فوجیوں کی وردی پہنی ہوئی تھی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ فوجی مردہ فوجیوں سے ان کے لباس اور چیزیں چھین لیتے ہیں ۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ لباس اور لوازمات واٹر لو کے میدان جنگ سے ملنے والے ڈھانچوں کی قومیت کے قابل اعتماد شواہد نہیں ہو سکتے ۔
آج کل زیادہ قابل اعتماد ، ڈی این اے ٹیسٹ ہیں۔
باقیات پر کام کرنے والے فرانزک پیتھالوجسٹ ڈاکٹر فلپ بوکھو نے بتایا کہ ہڈیوں کے کچھ حصے اب بھی موجود ہیں جن سے ڈی این اے کے نتائج برآمد ہونے چاہئیں، اور ان کا خیال ہے کہ مزید دو ماہ کے تجزیوں سے اس کا جواب مل جائے گا ۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جب تک یہ ہڈیاں خشک ہیں ہم کچھ کر سکتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی دشمن نمی ہے، جس کی وجہ سے ہر چیز بکھر جاتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ان فوجیوں کے علاقوں کا پتہ چلانے میں ان کے دانت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں خاص طور پر ایسے دانت جن پر انسانی ہڈیوں میں قدرتی طور پر جمع ہونے والے ایک کیمیائی مادےسٹرونٹیم کے نشانات موجود ہوں۔
ان کا کہنا ہے مختلف علاقوں کی ارضیاتی خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئےان فوجیوں کے دانتوں پر سٹرونٹیم کے نشانات کی مدد سے ان کے علاقوں کا پتہ چلا یا جا سکتا ہے ۔
ولکن نے کہا کہ تحقیق کے لیے ایک مثالی منظر نامہ یہ تلاش کرنا ہو گا کہ جن فوجیوں کی باقیات کا معائنہ کیا گیا آیا ان کا تعلق فرانس اور جرمنی دونوں جانب کے فوجیوں سے تھا۔
وکی پیڈیا کے مطابق پروشیا اپنے وقت کی سب سے نمایاں ریاستوں میں سے ایک تھی، جو بحیرہ بالٹک کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع تھی۔ اس نے 1871 میں جرمن ریاستوں کو متحد کر کے جرمن سلطنت کی تشکیل کی تھی ۔ جو 1918 میں جرمن انقلاب کے بعد دوسری جرمن بادشاہتوں کی طرح ختم ہو گئی تھی ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔