افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے نامعلوم افراد نے ایک غیر سرکاری ادارے سے منسلک دو انجینئرز کو اغوا کر لیا ہے۔
دونوں انجینئرز جنوبی وزیرستان کے علاقے مکینی کے ایک گاؤں میں پینے کے پانی کی فراہمی کے ایک زیرِ تعمیر منصوبے کا معائنہ کرنے گئے تھے۔
جنوبی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) شوکت علی خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں انجینئرز کے اغوا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انجینئر شفیع اللہ اور انجینئر تیمور خان 'سرحد رورل سپورٹ پروگرام' سے منسلک ہیں۔
اُن کے بقول دونوں ڈرائیور کے ہمراہ تحصیل مکینی کے گاؤں قلندر کلے میں ایک زیرِ تعمیر منصوبے کے معائنے کے لیے گئے تھے۔ جہاں سے انہیں گاڑی اور ڈرائیور سمیت نامعلوم افراد نے اغوا کیا۔ اغوا کاروں نے بعد میں ڈرائیور کو گاڑی سمیت واپس بھیج دیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
تاحال کسی فرد یا گروہ نے دونوں انجینئرز کے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
چند روز قبل ملحقہ شمالی وزیرستان سے بھی نا معلوم عسکریت پسندوں نے فوج کے ذیلی تعمیراتی ادارے سے منسلک دو مزدوروں کو اغوا کیا تھا جو تاحال بازیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
حزبِ اختلاف میں شامل جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اغوا اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ذمہ داری حکومت اور اداروں پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند سال قبل حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ علاقے میں مکمل امن و امان قائم ہو گیا ہے اور کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا 2009 میں نقل مکانی کرنے والوں کو واپس لایا گیا۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ دنوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مکینی سے ملحقہ جنوبی وزیرستان کے ایک علاقے میں گزشتہ ہفتے سیکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں کے دو حملے ہوئے تھے جس میں ایک افسر سمیت سیکیورٹی فورسز کے مجموعی طور پر آٹھ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
شمالی وزیرستان میں گزشتہ ماہ ستمبر سے اب تک سیکیورٹی فورسز پر چار حملے کیے جا چکے ہیں۔ جب کہ گھات لگا کر قتل کی ایک درجن سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں۔
حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر تنظیمیں پاکستانی علاقے میں امن و امان خراب کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔