پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے دو اسکولوں کو نامعلوم افراد نے دھماکہ خیز مواد کے ذریعے تباہ کر دیا۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب پیش آنے والے اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی حاجی مجتبی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ واقعہ تحصیل میر علی میں پیش آیا۔
ضلعی پولیس افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ نامعلوم افراد نے گاؤں موسکی اور گاؤں حسوخیل میں گورنمنٹ گرلز مڈل اسکولوں کو بموں سے تباہ کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ گاؤں حسوخیل میں گورنمنٹ گرلز اسکول حافظ آباد اور گاؤں موسکی میں گورنمنٹ گرلز سکول ڈاکٹر نور جنت گل کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں، تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
مقامی قبائلی رہنما احسان داوڑ کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد اُساتذہ اور طالبات میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی، تاہم حکام نے اسے دہشت گردی قرار دیا ہے۔
شمالی وزیرستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے علاوہ حافظ گل بہادر کی شوری مجاہدین بھی حکومتی اداروں اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔
شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر ریحان گل خٹک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کے اسکول تباہ کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 2005 سے لے کر 2014 تک علاقے میں شدت پسندی کی متعدد کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے اسکولوں پر حملوں کی ذمے داری قبول کی جاتی رہی ہے۔