متحدہ عرب امارات میں جوئے کی اجازت نہیں ہے لیکن اس نے حال ہی میں کمرشل گیمنگ کے نام سے ایک وفاقی اتھارٹی قائم کی ہے ۔مبصرین کےمطابق یہ اس بات کی ایک علامت ہو سکتی ہے کہ یو اے ای جوئے کی اجازت دینے ہی والا ہے کیوں کہ کسینو کی بڑی بڑی کمپنیاں خلیج کے اس عرب ملک میں اکٹھی ہو چکی ہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی وام نیوز نے اتوار کی رات جنرل کمر شل گیمنگ ریگولیٹری اتھارٹی ، جی سی جی آر اے کی تشکیل کا اعلان کیا لیکن اس کے اسٹرکچر اور آپریشنز کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
امارات نے امریکی ریاست میزور ی کے مشہور ریور بوٹ کسینوز کے نگران ادارے، گیمنگ کمیشن کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ، کیون مولالی کو اتھارٹی کے سی ای او کے طور پر نامزد کیا ہے۔ اور لاس ویگاس میں جوئے کے مرکز ،نویڈا شہر میں ایم جی ایم ریزورٹس انٹر نیشنل کے سابق چئیرمین اور سی ای او کو اتھارٹی کے بور ڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا ہے۔ یہ ریزورٹس کسینو بھی چلاتا ہے ۔
مولالی نے ایک بیان میں کہا کہ ،” میں متحدہ عرب امارات کے جی سی جی آر اے کے افتتاحی سی ای او کے طور پر اپنی نامزدگی پر خوش ہو ں ، اور اپنے تجربہ کار رفقائے کار کے ساتھ یو اے ای کی لاٹری اور گیمنگ انڈسٹری کے لئے ایک مستعد ریگولیٹری ادارے اور لائحہ عمل کی تشکیل کا منتظر ہوں ۔ “
خبر رساں ادارے وام نے اتھارٹی کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ کمرشل گیمنگ کی ریگو لیٹری سرگرمیوں کو مربوط کرے گا ، قومی سطح پر لائسنس دینے کا بندو بست کرے گا اور کمرشل گیمنگ کے اقتصادی امکانات کے بند دروازے کھولے گا۔
ایک عرصے سے متحدہ عرب امارات کے بارے میں یہ افواہیں گردش کرر ہی تھیں کہ وہاں جوئے خانوں کو رقم اکٹھی کرنے کے ایک ذریعے کے طور پرزیر غورلایا جا رہا ہے ، خاص طور پر دوبئی میں جو طویل فاصلوں کی ایمیریٹس ائیر لائن کا مرکز ہے ۔ لیکن حالیہ برسوں میں کسینو کے بارے میں افواہیں بڑھتی رہیں ۔
2022 میں متحدہ عرب امارات کی انتہائی شمالی ریاست راس الخیمہ نے لاس ویگاس میں قائم کسینو کی ایک بڑی کمپنی وین ریزورٹس کے ساتھ کئی ارب ڈالر کے ایک معاہدے کا اعلان کیا۔
راس الخیمہ کے حکا م نے اس ہوٹل میں برا ہ راست کسی جواخانے کی موجودگی سے بار بار انکار کیا ہے۔ لیکن کسینو کمپنی وین کا کہناہے کہ اس پراجیکٹ میں ایک ،مربوط ریزورٹ ،کی انتظامیہ شامل ہے۔
مربوط ریزورٹ کی اصطلاح ایک ایسے ہوٹل کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں کسینو اور دوسری سہولیات شامل ہوتی ہیں ۔
اپریل میں وین ریزورٹ کے سی ای او کریگ بلنگز نے ایک کانفرنس کال میں راس الخیمہ ریزورٹ کی قیمت 3 اعشاریہ نو ارب ڈالر بتائی تھی اور کہا تھا کہ و ہ 2027 میں کھل جائے گا ۔
اس سے قبل 2018 میں برطانیہ کے مشہور بحری جہا ز، دی کوئین ایلزبتھ 2 کو 100 ملین ڈالر کے خرچ سےمرمت کے بعد دوبئی میں ایک ہوٹل کے طور پر کھولا گیا تھا۔ اس میں ابھی تک اس کی غیر فعال کی گئی سلاٹ مشینیں موجود ہیں ۔
سال 2018 ہی میں ہوٹل اور کسینو چلانے والی کمپنی ’سیزرز‘ نے دبئی میں ایک ریزورٹ بنایا تھا جس میں کسینو شامل نہیں تھا جو اس سہولت کے بغیر اس کمپنی کا پہلا منصوبہ تھا۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق وہاں کسینو کی کمپنیوں، ایم جی ایم، بلاژیو اور آریا کے پراجیکٹس کی تعمیر کا کام جاری ہے ۔
متحدہ عرب امارات میں جوئے خانوں کے اضافے سے اس کی سیاحت کی منافع بخش صنعت کے فروغ اور ان چینی سیاحوں کو واپس لانے میں مدد مل سکتی ہے جنہیں وہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران کھوچکا تھا۔
مالیاتی اعدادو شمار سے متعلق کمپنی بلومبرگ کا اندازہ ہے کہ یو اے ای گیمنگ کے ذریعے 6 اعشاریہ 6 ارب ڈالر سالانہ کے ریونیو لاسکتا ہے جو ممکنہ طور پر سنگا پور سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔
وفاقی اتھارٹی کی تشکیل سے ظاہر ہوتا ہےکہ ملک کا دار الحکومت ابو ظہبی ممکنہ طور پر ملک کے جوئے خانوں کا انتظام چلائے گا۔ تاہم سات امارات کی اس فیڈریشن کی قطعی طاقت امارات کے مقامی حکمرانوں کے پاس ہے ۔ مثال کے طور پر شارجہ کی امارت میں الکوحل کی فروخت پر پابندی ہے ۔ اور کسی بھی کسینو کو چلانے کے لیے اس پابندی کو ملحوظ خاطر رکھا جا سکتا ہے۔
کسینو کمپنی وین کے سی ای او بلنگز نے اگست میں سرمایہ کاروں سے ایک الگ کال میں اسی بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یو اے ای کے وفاقی اسٹرکچر اور ہر امارت کے انفرادی اختیارات کو سامنے رکھتے ہوئے، وین کے پاس المرجان جزیرے میں گیمنگ چلانے کے لیے ہر و ہ چیز موجود ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے ۔
بلنگز نے کہا کہ، اگرچہ دوسری امارات میں اسے قانونی بنانے پر انفرادی طور پر یا وفاقی سطح پر اور پھر اسے تمام امارات کے لیے قانونی بنانے کے بارے میں گفتگو ہو سکتی ہے ، تاہم انہیں توقع ہے کہ ہم راس الخیمہ کے لیے فوری طور پر اپنے لائسنس حاصل کر لیں گے ۔
تاہم جوئے خانوں اور ، ان سے حاصل ہونے والی بھاری نقد رقوم سے منی لانڈرنگ کے خطرہ پیدا ہو سکتا ہہے ۔ پہلے ہی جنگ سے فائدہ اٹھانے والوں، دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے والوں اور منشیات کے اسمگلروں نے جن پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ، حالیہ برسوں میں دوبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو اپنے اثاثوں کے لیے ایک محفوظ مقام کے طور پر استعمال کیا ہے ۔
پورے مشرق وسطیٰ میں جوئے خانے ااب بھی خال خال ہی ہیں کیوں کہ مسلم دنیا میں جوئے بازی کی ممانعت ہے۔ تاہم مصر اور لبنان میں کسینو چلتے ہیں ۔
دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں کب اور کس انداز کے جوئے خانے کھلیں گے اور ان کے باقی مسلم دنیاپر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سےلیا گیا ہے)
فورم