برطانوی پارلیمان نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق وزیرِ اعظم تھریسا مے کا تجویز کردہ نظرِ ثانی شدہ معاہدہ بھی بھاری اکثریت سے مسترد کردیا ہے۔
وزیرِ اعظم مے کی حکومت نے منگل کو بریگزٹ معاہدہ پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں پیش کیا تھا جسے ارکان نے 242 کے مقابلے میں391 ووٹوں سے مسترد کردیا۔
وزیرِ اعظم نے معاہدے کو پارلیمان میں پیش کرنے سے ایک روز قبل پیر کو فرانس کے شہر اسٹراس برگ کا ہنگامی دورہ کیا تھا جہاں وہ یورپی قائدین سے مذاکرات کے بعد معاہدے کی بعض متنازع شقوں پر نظرِ ثانی کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔
لیکن ان کی یہ کامیابی اور یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر نظرِ ثانی کی یقین دہانی بھی برطانوی ارکانِ پارلیمان کو قائل نہ کرسکی۔
پارلیمان نے نظرِ ثانی شدہ معاہدہ ایسے وقت مسترد کیا ہے جب برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی ڈیڈلائن میں صرف 16 دن رہ گئے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
برطانوی پارلیمان کی جانب سے معاہدہ مسترد کیے جانے کے بعد 'بریگزٹ' کا معاملہ انتہائی غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔
برطانوی پارلیمان کے پاس اب دو ہی راستے رہ گئے ہیں: یا تو وہ تھریسا مے کی حکومت کو بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی کا اختیار دے دے یا علیحدگی کو مؤخر کردے۔
برطانوی پارلیمان نے اس سے قبل حکومت کو پابند کیا تھا کہ وہ بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدہ نہیں ہوسکتی۔
لیکن نظرِ ثانی شدہ معاہدہ مسترد ہونے کے بعد حکومت اب بدھ کو پارلیمان میں بغیر معاہدے کے یونین سے علیحدگی کی تجویز دوبارہ پیش کرے گی۔
تجزیہ کار، ماہرینِ معیشت، یورپی یونین اور خود برطانوی سیاست دان خبردار کرچکے ہیں کہ اگر برطانیہ کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے علیحدہ ہوا تو اس کے برطانوی معیشت پر انتہائی تباہ کن اثرات پڑیں گے جس کا اثر لامحالہ یورپی اور عالمی معیشت پر بھی آئے گا۔
حزبِ اختلاف کی جماعت 'لیبر پارٹی' نے بریگزٹ بحران کے تناظر میں ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ لیبر اور بعض دیگر جماعتیں بریگزٹ کے معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کی تجویز کی بھی حمایت کرچکی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانوی پارلیمان کی جانب سے نظرِ ثانی شدہ معاہدہ بھی مسترد کیے جانے کے بعد ان میں سے کوئی بھی امکان بروئے کار آسکتا ہے۔
برطانوی پارلیمان نے اس سے قبل جنوری میں بریگزٹ سے متعلق معاہدے کا ابتدائی مسودہ بھی بھاری اکثریت سے مسترد کردیا تھا جس پر وزیرِ اعظم مے نے 18 ماہ کی محنت اور طویل مذاکرات کے بعد یورپی یونین کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔
'برطانیہ سے مزید بات نہیں ہوگی'
پیر کو وزیرِ اعظم تھریسا مے سے ملاقات کے بعد یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ جنکر نے خبردار کیا تھا کہ برطانوی پارلیمان کے پاس اب یہ معاہدہ منظور کرنے یا کسی معاہدے کے بغیر یونین سے علیحدگی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
یورپی قائدین بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی صورت برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر مزید مذاکرات نہیں کریں گے۔
پیر کو ہونے والے مذاکرات میں یورپی رہنماؤں نے برطانیہ کو یونین سے علیحدگی کے بعد برطانوی صوبے شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رکھنے کی یقین دہانی کرادی تھی۔
'آئرش بیک اسٹاپ' نامی یہ شرط معاہدے پر ایک بڑی وجۂ نزاع تھی جسے برطانوی پارلیمان نے ملک کو تقسیم کرنے والا اقدام قرار دیتے ہوئے ماننے سے صاف انکار کردیا تھا۔ لیکن یورپی یونین کی جانب سے اس شرط میں نرمی کی یقین دہانی بھی برطانوی ارکانِ پارلیمان کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔
برطانیہ کے عوام نے 2016ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں 48 فی صد کے مقابلے میں 52 فی صد کی اکثریت سے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
لیکن اس ووٹ کے نتیجے میں برطانوی معاشرہ، سیاست اور سیاسی جماعتیں بری طرح تقسیم کا شکار ہوچکی ہیں اور گزشتہ تین سال سے یہ معاملہ برطانیہ اور یورپی یونین کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔