برطانیہ نے عالمی برداری سے شام پر دباؤ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے جو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ملک کے وسطی شہرحما میں کی جانے والی کارروائی کے دوسرے روز بھی جاری رہنے کی اطلاعات ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور شہر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پیر کو شامی افواج نے حما پر ٹینکوں کے ذریعے گولہ باری کی۔ اس سے قبل اتوار کو سکیورٹی فورسز نے شہر میں لگ بھگ 80 افراد کو قتل کردیا تھا۔
ادھر برطانیہ کے وزیرِخارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کی انتظامیہ کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔ تاہم انہوں نے شامی حکومت کے خلاف عالمی برادری کی کسی فوجی کارروائی کا امکان مسترد کیا۔
پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں ولیم ہیگ کا کہنا تھا کہ عرب ممالک اور ترکی کو شام پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔
امریکہ اور یورپی یونین نے شام کی سکیورٹی افواج کی جانب سے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی سخت مذمت کی ہے۔
پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں روس نے بھی شام میں کثیر تعداد میں ہلاکتوں کی اطلاعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے شہریوں اور حکومتی نمائندوں، دونوں کے خلاف تشدد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے اتوار کو کہا تھا کہ شامی حکومت کی جانب سے اپنے ہی عوام کے خلاف طاقت کے استعمال پر وہ "صدمے" سے دوچار ہیں۔ ان کے بقول "دہشت زدہ کردینے والی" اطلاعات صدر بشار الاسد کی حکومت کا "حقیقی کردار" واضح کر رہی ہیں۔
شام کی حکومت کی جانب سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی آزدانہ نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کے باعث ملک میں جاری بے چینی سے متعلق سامنے آنے والی خبروں کی تصدیق ممکن نہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اتوار کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 140 تک ہے۔
دریں اثناء اٹلی اور جرمنی نے شام کی صورتِ حال کے جائزے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے شام کی حکومت پر زورد یا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال روک دے اور ان کے انسانی حقوق کا احترام کرے۔
لبنان کے سابق وزیرِاعظم سعد حریری نے بھی شام میں گزشتہ روز پیش آنے والے پرتشدد واقعات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی صورتِ حال پر "عالمی برادری اور عرب دنیا کی خاموشی" کا نتیجہ مزید شامی باشندوں کی ہلاکت کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
حما ملک کا وسطی اور ایک اہم شہر ہے جسے شام کی سیاسی مزاحمتی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ 1982ء میں بھی موجودہ صدر کے والد حافظ الاسد نے شہر میں اپنی حکومت کے خلاف جاری تحریک کو کچلنے کی غرض سے فوجی طاقت کا استعمال کیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔