یو کرین پر روس کے حملے کو چار ماہ مکمل ہونے کو ہیں اور ایسے میں یو کرین کے عہدیداروں میں یہ تشویش پائی جا رہی ہے کہ آیا مغرب اس جنگ کی طوالت سے اکتا جائے گا۔
یوکرین کو یہ خدشہ بھی ہے کہ روس اس کا فائدہ اٹھا کر یو کرین کو سمجھوتے پر مجبور کر سکتا ہے۔اس بارے میں یو کرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی اب تک یہ کہہ کر مزاحمت کرتے رہے ہیں کہ یوکرین امن اپنی شرائط پر ہی قبول کرےگا۔
صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ"تھکاوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ جنگ کا کوئی ایسا نتیجہ چاہتے ہیں جو ان کے اور ہمارے حق میں بھی ہو۔"
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے ایک انٹرویو میں 'پینٹا سینٹر' نامی تھنک ٹینک کے سیاسی تجزیہ کار ولودیمیر فیسنکو کا کہنا تھا کہ"یہ واضح ہے کہ روس مغرب کو تھکا دینا چاہتا ہے اور اب وہ اس مفروضے پر اپنی حکمت عملی بنا رہا ہے کہ مغربی ممالک تھک جائیں گے اور پھر بتدریج اپنے فوجی بیانات کو زیادہ موافقانہ بنانے لگیں گے۔"
اسی دوران یو کرین کے مشرق میں سیورو ڈونیسک پر کنٹرول کی لڑائی جمعے کو بھی جاری رہی۔ یو کرین کے عہدیداروں نے مغرب سے راکٹ سسٹم اور توپ خانے سمیت ہتھیاروں کے مطالبے میں اضافہ کر دیا ہے۔
یو کرین کی ملٹری انٹیلی جنس کے نائب سربراہ واڈیم سکی بٹسکی نے برطانوی اخبار 'گارڈین' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ جنگ آرٹلری یعنی توپ خانے کی جنگ ہے۔ ان کے مطابق روس کے 10 سے 15 توپ خانوں کے مقابلے میں یوکرین کے پاس صرف ایک آرٹلری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مغربی رفقاکے پاس جو کچھ تھا انہوں نے اس کا 10 فی صد ہمیں دیا ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ یو کرین کو جدید راکٹ سسٹم اور ہتھیار فراہم کرے گا جو اسے روس کے کلیدی اہداف کو زیادہ درست طور پر نشانہ بنانے میں مدد دیں گے۔
صدر زیلنسکی نے سیورو ڈونیسک کی لڑائی کو جنگ کی مشکل ترین لڑائیوں میں سے ایک کہا ہے جو ان کے مطابق کئی لحاظ سے ڈونباس کی قسمت کا فیصلہ کرے گی جس کے بارے میں روس کا دعویٰ ہے کہ اس کے 97 فی صد حصے پر اس کا قبضہ ہے۔
یو کرین کی سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری اولیسکی ڈینیلوف نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ روسی فوجیں اپنی پوری توجہ سیورو ڈونیسک کے علاقے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی فوجیں جوابی توپ خانے کی شدید کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سسٹم کے بغیر بھی ہم ٹھیک ہیں۔ ہم اپنی پوزیشن پر ڈٹے ہیں اور ہمارے سرجن مناسب سازوسامان نہ ہونے کے باوجود ہمارے فوجیوں کی زندگی بچانے کے لیے جو کر رہے ہیں وہ ناقابلِ یقین ہے۔ْ