یوکرین کے صدر کے ایک مشیر نے بدھ کو کہا ہے کہ یوکرین کی فوج اہم مشرقی گڑھ باخموت سے پیچھے ہٹ سکتی ہے۔انہوں نے یہ بیان ایسے میں دیا ہے جب شہر پر قبضہ کرنے کے لیے مہینوں سے روسی جارحیت جاری ہے .ان کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ ہماری فوج تمام آپشنز پر غور کرے گی۔
اب تک، یوکرین کا اس شہر پر قبضہ برقرار ہے، لیکن عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑی تو وہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے اقتصادی مشیر الیگزینڈر روڈنیانسکی نے سی این این کو بتایا کہ ہم اپنے تمام لوگوں کو بغیر کسی وجہ قربان نہیں کر سکتے۔
اس سے قبل یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے منگل کو اپنے رات کے خطاب میں کہا تھا کہ’’ سب سے مشکل صورت حال اب بھی باخموت میں ہونے والی لڑائی ہے جو شہر کے دفاع کے لیے اہم ہے۔ لڑائی کی شدت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔‘‘
زیلنسکی نے کہا کہ باخموت کے دفاع کے انچارج یوکرینی کمانڈر کرنل جنرل اولیکسنڈر سیرسکی نے بتایا کہ جمعرات سے اب تک اس علاقے میں 800 روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
اس سے قبل سیرسکی نے منگل کوسوشل میڈیا پر کہا،تھا کہ شدید نقصانات اٹھانے کے باوجود، دشمن نے اپنے بہترین تربیت یافتہ ویگنر حملہ آور یونٹوں کو ہمارے فوجیوں کا دفاع توڑنے اور شہر کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرنے کے لیے روانہ کیا ہے۔
روس مشرقی یوکرین کے کئی علاقوں پر اپنے حملے تیز کر رہا ہے، جس میں باخموت بھی شامل ہے، اس تباہ حال شہر میں کبھی 75,000 لوگ رہتے تھے۔
مہینوں سے جاری لڑائی کا مرکز باخموت کے آس پاس کے قصبے اور دیہات ہیں ۔ماسکو یوکرین کے سپلائی راستوں کو منقطع کرنے کے لیے شہر کو محاصرے میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایک سال قبل جنگ کے ابتدائی دنوں میں یوکرین کے دارالحکومت کیف پر فوری قبضہ کرنے میں ناکامی کے بعد، روس نے اپنی لڑائی مشرقی ڈونباس کے علاقے میں مرکوز کر دی ہے۔
لڑائی میں دونوں فریقوں کو بھاری جانی نقصان پہنچا ہے۔
(اس خبر کے لیے معلومات اے ایف پی، رائٹرز اور اے پی سے لی گئیں ہیں)