سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حکم پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا متضاد ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ججز کے اختلافی نوٹ نے حکومت اور حزبِ اختلاف کو موقع دے دیا ہے کہ وہ اس فیصلے کی اپنی اپنی تشریح کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگرچہ چیف جسٹس کی جانب سے تحریر کیے گئے اس فیصلے کو دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے صادر کیا گیا ہے۔ لیکن اختلافی نوٹ میں دو ججز کے دیگر دو ججز سے اتفاق کرنے سے فیصلے میں جھول پیدا ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ پہلے ازخود نوٹس کیس کی سماعت نو رُکنی لارجر بینچ کر رہا تھا جو بعدازاں ٹوٹ گیا تھا۔ نو رُکنی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ازخود نوٹس لینے سے اختلاف کیا تھا۔
مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ چار ، تین کے تناسب سے آیا ہے کیوں کہ چار ججوں کی رائے ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ اس مقدمے کو قابل سماعت نہیں سمجھتے۔
ان کے بقول اگرچہ تیکنیکی طور پر تین ججوں کا فیصلہ ہی اکثریتی فیصلہ ہے۔ لیکن چار ججز کی اختلافی رائے سامنے آنے سے فیصلے کی اخلاقی بنیاد کمزور ہوگئی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور سے متعلق ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے تنازعے کا حل نہیں نکلا کیوں کہ حکومت اور حزبِ اختلاف اپنی الگ الگ تشریح کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کے مطابق چار تین سے آنے والے فیصلے کے تحت اس معاملے میں سپریم کورٹ کی حدود نہیں بنتیں جب کہ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ پانچوں ججز نے ان کی درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیا ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے تین دو کے فیصلے کو بھی مان لیا جائے تو اس میں ابہام پایا جاتا ہے کیوں کہ اگر صدر وزیر اعظم کی مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ جیسے فیصلے کریں گے تو پھر پارلیمانی نظام مفلوج ہو جائے گا۔
مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی میں نہیں جائے گی تو اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی یا کوئی اور فریق نظرثانی میں جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست آنے پر یہ سوال بھی آئے گا کہ نظرثانی کی اس درخواست کو پانچ رکنی بینچ سنے گا یا سات رکنی۔
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ حکومت نے کہا ہے کہ چو نکہ یہ مقدمات دوںوں ہائی کورٹس میں زیر سماعت ہیں اور وہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کریں گے۔ لیکن ان کی نظر میں سپریم کورٹ ہی اس ابہام کو دور کرسکتی ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مؤقف اپنایا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا معاملہ ابھی پنجاب اور خیبر پختونخوا ہائی کورٹس میں زیرِ سماعت ہے جہاں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی مزید تشریح سامنے آجائے گی۔
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی جو تشریح کررہی ہے کہ 90 روز میں انتخابات کا فیصلہ اقلیت کا فیصلہ ہے تو اس سے لگتا ہے کہ وہ انتخابات کروانے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں لگتا نہیں کہ 90 روز میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ہوسکیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بات چیت کے امکانات بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں تو ایسی صورت میں سیاسی بے یقینی بڑھے گی۔
الیکشن کمیشن کیا کرسکتا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اجلاس ہوا جس میں عدالتی فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد عمل درآمد کے حوالے سے غور کیا گیا۔
اس معاملے میں عدالت نے الیکشن کمیشن کو گورنر اور صدر مملکت کے ساتھ مشاورت کا حکم دیا ہے۔ لیکن عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے واضح طور پر کہا تھا کہ تاریخ دینا کمیشن کا اختیار نہیں ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق عدالت کا فیصلہ خاصا مشکل ہے اور الیکشن کمیشن کے پاس اس وقت مختلف آپشن موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک آپشن مردم شماری سے متعلق ہے کیوں کہ اس کا آغاز ہوچکا ہے اور 30 اپریل کو اس کے حتمی نتائج سامنے آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 61 کے تحت جب ایک بار مردم شماری شروع ہوجائے تو اس کے بعد حلقہ بندیاں ضروری ہوتی ہیں۔ جب کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو 90 دن میں انتخابات کا تو کہا ہے۔ لیکن مردم شماری کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں دی ہے بلکہ کمیشن کو مشاورت سے انتخابات کی تاریخ دینے کا کہا ہے۔
کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں عدالت نے یہ راستہ دیا ہے۔ اب اگر اس بارے میں صوبوں کے گورنر اور صدر مردم شماری کے بعد کی تاریخ دیں تو انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں۔ مشاورت کی آڑ میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔
ان کے مطابق یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 105 سے متصادم نظر آتا ہے جس کے مطابق صوبائی اسمبلی کا گورنر تاریخ دینے کا مجاز ہے۔ اس کے علاوہ فیصلے میں آرٹیکل 57 اور مردم شماری کے بارے میں وضاحت نہیں کی گئی۔
’ایک اور قانونی تنازع جنم لے سکتا ہے‘
صوبہ سندھ کے سابق ایڈوکیٹ جنرل بیرسٹر ضمیر گھمرو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں جب کیسز چل رہے تھے تو سپریم کورٹ کو ازخودنوٹس لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
اُن کے بقول اسی وجہ سے عدالت کے دو ججز نے ازخود نوٹس کی مخالفت کی اور اس کیس میں اختلافی فیصلہ دیا اور بینچ سے الگ کیے گئے دو ججز کے فیصلوں سے اتفاق کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ 4 اور 3 کا ہوگیا ہے جس میں 4 ججز کی اکثریت نے فیصلہ سے اختلاف کیا ہے جب کہ چیف جسٹس نے آج فیصلہ سنانے سے قبل ہی اسے تین اور دو کا فیصلہ قرار دیا تھا ۔
بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا تھا کہ کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس جب کوئی بینچ بنا دے تو جج انکار تو کرسکتا ہے لیکن اسے نکالا نہیں جاسکتا۔ دو ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی الگ نہیں ہوئے تھے لہذا یہ چار اور تین کا فیصلہ ہے، اس تمام صورت حال میں ایک نیا تنازع سامنے آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ایک نیا تنازع بھی آسکتا ہے کیوں کہ چیف الیکشن کمشنر اس معاملہ پر قانونی رائے کے لیے اٹارنی جنرل سے رابطہ کریں گے اور اس فیصلے کی تشریح طلب کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے بھی یہی رائے آنے کی صورت میں الیکشن کمیشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد سمجھے گا اور اس طرح نیا آئینی بحران پیدا ہوگا جو عدلیہ اور حکومت کے لیے مشکل صورتِ حال ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سب سے بچنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دینا بہتر تھا کیوں کہ اس طرح تمام جج صاحبان کی موجودگی میں اکثریتی فیصلہ آجاتا جسے تسلیم کرنا پڑتا لیکن بدقسمتی سے فل کورٹ نہ بن سکا۔