واشنگٹن —
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ نائب صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے صدر وِکٹر یَانوکووچ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے، جس میں اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ دارلحکومت ’کیو‘ میں مظاہرین اور حکومتی فوج کے درمیان پُرتشد کارروائیاں فوری طور پر بند کی جائیں۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن نے لڑائی میں الجھے ہوئے یوکرین کے حکمران سے کہا کہ ’مزید خون خرابے کے واقعات یوکرین-امریکہ تعلقات پر اثر انداز ہوں گے‘۔
بدھ کے روز مخالفیں سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین مظاہرین ہلاک ہوئے، ایسے میں جب حکومت مخالف احتجاج تیسرے مہینے میں داخل ہوا۔
امریکہ کی طرف سے دیا جانے والا یہ انتباہ ایسے وقت آیا ہے جب یوکرین کے کم از کم تین مغربی شہروں میں مظاہرین نے حکومتی دفاتر پر حملے کیے ہیں۔
یوکرین کے دارالحکومت ’کیو‘ میں جمعرات کے روز نذر آتش ہونے والے ناکوں کی آگ بجھا دی گئی، ایسے میں جب حکومت مخالف مظاہرین نے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں مختصر وقفے پر رضامندی کا اظہار کیا، جس سے قبل صدر وِکٹر یَنوکووچ نے اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کا دوسرا مرحلہ مکمل کیا۔
اپوزیشن رہنماٴ، جن میں وِٹالی کِلشکو بھی شامل ہیں جو باکسر رہ چکے ہیں اور اس وقت سیاست کے شہ سوار ہیں، وہ وزیر اعظم مائکولا ازاروف کی حکومت سے مستعفی ہونے، قبل از وقت صدارتی انتخابات کرانے اور احتجاج کے خلاف حالیہ دنوں میں جاری ہونے والی قدغنیں اٹھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز، اُنھوں نے 24 گھنٹے کی ڈیڈلائن دی تھی، تاکہ مسٹر یَنوکووچ اُن کے مطالبات ماننے کا اعلان کریں۔
بحران کے خاتمے کے لیے، صدر ینوکووچ نے جمعرات کو پارلیمان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
وزیر اعظم اَزاروف نے، جو اِس وقت سوٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ’ورلڈ اکانامک فورم‘ میں شریک ہیں، صدارتی انتخابات کے قبل از وقت کرانے کے مطالبے کو ’غیر حقیقت پسندانہ‘ قرار دیا ہے اور حکومت مخالف مظاہرین پر الزام لگایا ہے کہ وہ تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بدھ کو حزب مخالف کے راہنما، اَرسنی یَتسینک نے اپنے حامیوں کو بتایا کہ اگر صدر سخت کارروائی ختم نہیں کرتے، تو مل کر اکٹھا مارچ کیا جائے گا۔
’کیو‘ میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم تین افراد ہلاک اور سیکنڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز یَتسینک کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے، کِلشکو نے یہ عہد کیا کہ وہ تشدد اور بحران کے خاتمے کے لیے درکار کوئی بھی اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جمعرات کے دِن، یہ کشیدگی ’کیو‘ سے باہر علاقے میں پھیل چکی تھی، جب مغربی یوکرین کے شہر، لِوویو میں حکومت مخالف مظاہرین نے علاقائی گورنر کے دفتر پر حملہ کیا اور اُن سے استعفے کا مراسلہ تحریر کرنے کے لیے کہا۔
امریکہ نے تشدد کے تازہ ترین واقعات کی مذمت کرتے ہوئے، انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر صدر یَنوکووچ، یوکرین کے عوام کے جمہوری حقوق کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو یوکرین کے خلاف ممکنہ پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ محکمہٴخارجہ نے تشدد کی کارروائیوں کا الزام حکومت اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر عائد کیا ہے۔
یورپی کمیشن کے صدر، جوز منوئیل باروسو نے جمعرات کے دِن مسٹر یَنوکووچ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے، مطالبہ کیا کہ پُرتشدد کارروائی سے احتراز کیا جائے، اور مخالفین سے مذاکرات کا آغاز کریں۔
یورپی کمیشن کے ترجمان، اولور بیلی نے کہا ہے کہ صدر یَنوکووچ نے مسٹر باروسو کو یہ یقین دہائی کرائی ہے کہ احتجاج کے خاتمے کے لیے، وہ ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان نہیں کریں گے۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن نے لڑائی میں الجھے ہوئے یوکرین کے حکمران سے کہا کہ ’مزید خون خرابے کے واقعات یوکرین-امریکہ تعلقات پر اثر انداز ہوں گے‘۔
بدھ کے روز مخالفیں سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین مظاہرین ہلاک ہوئے، ایسے میں جب حکومت مخالف احتجاج تیسرے مہینے میں داخل ہوا۔
امریکہ کی طرف سے دیا جانے والا یہ انتباہ ایسے وقت آیا ہے جب یوکرین کے کم از کم تین مغربی شہروں میں مظاہرین نے حکومتی دفاتر پر حملے کیے ہیں۔
یوکرین کے دارالحکومت ’کیو‘ میں جمعرات کے روز نذر آتش ہونے والے ناکوں کی آگ بجھا دی گئی، ایسے میں جب حکومت مخالف مظاہرین نے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں مختصر وقفے پر رضامندی کا اظہار کیا، جس سے قبل صدر وِکٹر یَنوکووچ نے اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کا دوسرا مرحلہ مکمل کیا۔
اپوزیشن رہنماٴ، جن میں وِٹالی کِلشکو بھی شامل ہیں جو باکسر رہ چکے ہیں اور اس وقت سیاست کے شہ سوار ہیں، وہ وزیر اعظم مائکولا ازاروف کی حکومت سے مستعفی ہونے، قبل از وقت صدارتی انتخابات کرانے اور احتجاج کے خلاف حالیہ دنوں میں جاری ہونے والی قدغنیں اٹھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز، اُنھوں نے 24 گھنٹے کی ڈیڈلائن دی تھی، تاکہ مسٹر یَنوکووچ اُن کے مطالبات ماننے کا اعلان کریں۔
بحران کے خاتمے کے لیے، صدر ینوکووچ نے جمعرات کو پارلیمان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
وزیر اعظم اَزاروف نے، جو اِس وقت سوٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ’ورلڈ اکانامک فورم‘ میں شریک ہیں، صدارتی انتخابات کے قبل از وقت کرانے کے مطالبے کو ’غیر حقیقت پسندانہ‘ قرار دیا ہے اور حکومت مخالف مظاہرین پر الزام لگایا ہے کہ وہ تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بدھ کو حزب مخالف کے راہنما، اَرسنی یَتسینک نے اپنے حامیوں کو بتایا کہ اگر صدر سخت کارروائی ختم نہیں کرتے، تو مل کر اکٹھا مارچ کیا جائے گا۔
’کیو‘ میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم تین افراد ہلاک اور سیکنڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز یَتسینک کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے، کِلشکو نے یہ عہد کیا کہ وہ تشدد اور بحران کے خاتمے کے لیے درکار کوئی بھی اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جمعرات کے دِن، یہ کشیدگی ’کیو‘ سے باہر علاقے میں پھیل چکی تھی، جب مغربی یوکرین کے شہر، لِوویو میں حکومت مخالف مظاہرین نے علاقائی گورنر کے دفتر پر حملہ کیا اور اُن سے استعفے کا مراسلہ تحریر کرنے کے لیے کہا۔
امریکہ نے تشدد کے تازہ ترین واقعات کی مذمت کرتے ہوئے، انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر صدر یَنوکووچ، یوکرین کے عوام کے جمہوری حقوق کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو یوکرین کے خلاف ممکنہ پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ محکمہٴخارجہ نے تشدد کی کارروائیوں کا الزام حکومت اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر عائد کیا ہے۔
یورپی کمیشن کے صدر، جوز منوئیل باروسو نے جمعرات کے دِن مسٹر یَنوکووچ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے، مطالبہ کیا کہ پُرتشدد کارروائی سے احتراز کیا جائے، اور مخالفین سے مذاکرات کا آغاز کریں۔
یورپی کمیشن کے ترجمان، اولور بیلی نے کہا ہے کہ صدر یَنوکووچ نے مسٹر باروسو کو یہ یقین دہائی کرائی ہے کہ احتجاج کے خاتمے کے لیے، وہ ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان نہیں کریں گے۔