حکومتِ پاکستان کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ملک میں ادویات کی قیمتوں میں 20 فی صد تک اضافے کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب اگر وفاقی کابینہ نے بھی اس منظوری کو لاگو کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ ملک میں ادویات کی قیمتوں میں چند برس میں ایک اور بڑا اضافہ ہوگا لیکن دوا ساز کمپنیاں ملک میں تاریخی مہنگائی کی لہر کے باعث اس اضافے کو کم قرار دے رہی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ ادویات کے خام مال کی تیاری ملک میں ہی کرنے کے لیے پالیسی کے فقدان اور پھر قیمتوں کو منڈی کے بجائے سرکاری سطح پر متعین کرنا ہے جب کہ اس شعبے میں تحقیق اور ترقی نہ ہونا بھی ایک اہم وجہ قرار دی جا رہی ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی وزارتِ نے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کے تناظر میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان(ڈریپ) کے پالیسی بورڈ کی سفارشات پر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پیش کی۔
مارکیٹ میں ادویات کی مسلسل دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ای سی سی نے ایک وقتی استثنا کے طور پر اجازت دیتے ہوئے مینوفیکچررز اور درآمد کنندگان کو ضروری ادویات کی موجودہ قیمتوں میں 14 فی صد اور دیگر ادویات کی قیمتوں میں 20 فی صد تک اضافے کی اجازت دی ہے۔
تاہم اس میں شرط یہ بھی رکھی گئی ہے کہ قیمتوں میں اس اضافے کو آئندہ مالی سال جو جولائی سے شروع ہونا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں اس زمرے میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
ای سی سی نے پالیسی بورڈ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جولائی 2023 میں تین ماہ بعد صورتِ حال کا جائزہ لے اور اگر پاکستانی روپے کی قدر بڑھ جاتی ہے تو قیمتوں میں کمی کے حوالے سے اپنی سفارشات وفاقی حکومت کو ارسال کرے۔
اس اضافے کی اگرچہ وفاقی کابینہ کی جانب سے توثیق ہونا باقی ہے لیکن گزشتہ برس اگست میں ایسا ہی ایک فیصلہ کابینہ مسترد بھی کر چکی ہے جب وزارتِ صحت نے 35 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری کابینہ میں پیش کی تھی۔
بعض ماہرین کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے سے مختلف جان لیوا امراض کی ادویات کی مارکیٹ میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریض اسمگل شدہ یا غیر رجسٹرڈ ادویات کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں ادویات کی لائسنسنگ، مینوفیکچرنگ، رجسٹریشن، قیمتوں کا تعین، درآمدات اور برآمدات وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہیں، جب کہ تقسیم اور فروخت متعلقہ صوبائی حکومتوں کے ذمے ہے۔
ایک جانب حکومت کا خیال ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ مقامی مارکیٹ میں ان کی مصنوعی قلت کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرے گا تو دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کو ہی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔
ادویہ ساز کمپنیوں کے منافع میں مسلسل اضافہ
ڈرگ لایئر فورم کے بانی رہنما اور فارماسسٹ نور محمد مہر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے ادویات کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ مریضوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ اس منظوری سے 80 ہزار ادویات کی قیمتوں میں اوسط مہنگائی کی کی نسبت سے 70 فی صد تک اضافے کی منظوری دینا ناانصافی ہے۔
نور محمد مہر ایڈووکیٹ کے مطابق پاکستان میں ایلوپیتھک ادویات کے ایک لاکھ پانچ ہزار برانڈز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 80 ہزار ایکٹیو ادویات ہیں۔ حکومت کی طرف سے ایک دم 80 ہزار ادویات کی قیمتوں میں 20 سے 70 فی صد اضافہ تاریخی اضافہ ہے۔ اس اضافے سے شوگر کے مریضوں کی لائف لائن’ انسولین‘ (ہیمولین) کی قیمت 2500 سے بڑھ کر 3000 روپے، دل کے امراض میں کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے والی دوا ’لپی گیٹ‘ کی قیمت 225 سے بڑھ کر 270 روپے، جب کہ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے دوا ’ٹرائی فورج‘ کی قیمت 364 روپے سے بڑھ کر 436 روپے ہوجائے گی۔
ان کے بقول بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کی گولی ’کنکور‘ کی قیمت بھی 274 سے بڑھ کر 329 روپے ہوجائے گی۔ اسی طرح دیگر بہت ساری ادویات کی،جن میں کینسر اور گردوں کے امراض کی ادویات شامل ہیں، کیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔
نور محمد مہر کہتے ہیں کہ اس حوالے سے سال 2018 میں اپنائی گئی ڈرگ پرائسنگ پالیسی مریضوں کے لیے مشکلات بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں دوا ساز کمپنیوں کے منافع میں مستقل اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہ کمپنیاں مسلسل ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں بھی ادویات کی قیمتوں میں متعدد بار اضافہ کیا گیا اور اب مزید اضافہ مریضوں کے ساتھ ظلم ہے۔
قیمت میں اضافہ مہنگائی کی شرح سے کم
دوسری جانب دوا ساز کمپنیوں کے مالکان اور تنظیمیں حکومت کی جانب سے اس اضافے کو بھی کم قرار دے رہی ہیں۔
پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قیصر وحید کا کہنا ہے کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا کس دوا کی قیمت میں کس قدر اضافہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں تین طرح کی ادویات ملتی ہیں۔ ایک وہ جو دہائیوں سے ملک میں تیار ہوتی آ رہی ہیِں اور دوسری وہ جو نئی مالیکیول یا کسی حد تک جدید ہیں۔
ڈاکٹر قیصر وحید کے مطابق اب ان دونوں اقسام کی ادویات کو تیار کرکے فروخت کرنا مشکل ہو چکا ہے کیوں کہ دواؤں کی تیاری کے لیے باہر سے درآمد شدہ خام مال، روپے کی قدر گرنے کے باعث کافی مہنگا ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی ادویات مارکیٹ میں کم دستیاب ہیں۔
ان کے مطابق تیسری قسم کی ادویات میں بائیولوجیکل اور کینسر کے خلاف ادویات شامل ہوتی ہیںجن میں سے زیادہ تر تیار شدہ درآمد کی جاتی ہیں۔ ان ادویات کی قیمت امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث متاثر ہو رہی ہے۔
پالیسی سازی میں نقائص
ڈاکٹر قیصر وحید کا بھی کہنا ہے کہ اصل مسئلہ حکومت کی پالیسیوں کا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دوا سازی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پالیسی میں نقائص پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں، بشمول بھارت اور بنگلہ دیش، صرف انتہائی اہم ادویات کی قیمتوں کا تعین اور کنٹرول ہی حکومت کے پاس ہوتا ہے باقی کا تعین مارکیٹ کرتی ہے لیکن پاکستان میں ڈرگ ایکٹ 1976 کی سیکشن 12 کے تحت ادویات کی قیمتوں کا تعین وفاقی حکومت کے پاس ہے تو حکومت یعنی وفاقی کابینہ ہی ہر گولی، سیرپ، انجیکشن وغیرہ کی قیمت کا تعین کرتی ہے۔
ان کے خیال میں یہ ایک تیکنیکی کام ہے اور اسی لیے ڈریپ کے قانون میں تبدیلی لا کر یہ کام اس صنعت سے وابستہ تیکنیکی علم رکھنے والوں کے سپرد کیا جاجانا چاہیے۔
سرمایہ کاری کے امکانات ختم ہونے کا اندیشہ
فارماسیوٹیکل انڈسٹریز سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ دیگر صنعتوں کی طرح فارماسیوٹیکل انڈسٹری بھی زیادہ لاگت پر مال تیار کرکے کم قیمت پر نہیں بیچ سکتی۔
ان کا مؤقف ہے کہ یہ صنعت بھی منافع کمانے کا حق رکھتی ہے اور اس صنعت سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر قیمتوں کو نہ بڑھایا گیا تو دوا سازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کے امکانات ختم ہوسکتے ہیں۔
’ادویات کا 95 فی صد خام مال باہر سے منگوایا جاتا ہے‘
انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ سے وابستہ صحافی وقار بھٹی کہتے ہیں کہ ملک میں تاریخی مہنگائی کی وجہ سے درآمد شدہ خام مال بھی مہنگا ہوگیا ہے جس سے ادویات کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ جائز نظر آتا ہے لیکن اس میں قصور حکومتی پالیسی کا بھی ہے جس نے صنعت کاروں کو اس جانب راغب کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اس بارے میں کوئی پالیسی دیتی اور صنعت کاروں کو مجبور کیا جاتا کہ عام استعمال کی ادویات کا خام مال مقامی طور پر ہی تیار کیا جائے۔
وقار بھٹی کا کہنا تھا کہ ادویات کا 95 فی صد خام مال باہر سے منگوایا جاتا ہے جب کہ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت اس صنعت میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کو دواسازی کی خام مصنوعات کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہ چین ہے جس کے بعد سوئٹزرلینڈ، بھارت، فرانس، بیلجیم اور جرمنی آتے ہیں۔