اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ بوکو حرام کی طرف سے مغوی طالبات کو فروخت کرنا انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
اس دہشت گرد گروپ نے نائیجیریا سے گزشتہ ماہ تین سو سے زائد طالبات کو اغوا کیا تھا اور ان کی طرف سے مزید آٹھ لڑکیوں کو قبضے میں لینے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
پہلے اغوا ہونے والی طالبات میں سے کچھ لڑکیاں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن اب ابھی 276 سے زائد لڑکیاں عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہیں۔
انسانی حقوق کے دفتر نے بوکوحرام کے رہنما کی طرف سے سامنے آنے والے وڈیو پیغام کی بھی شدید مذمت کی ہے جس میں عسکریت پسند کمانڈر نے مغوی لڑکیوں کو غلام قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں یا تو فروخت کر دیا جائے گا یا ان سے شادیاں کی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے ترجمان روپرٹ کولولے نے کہا کہ اس عسکریت پسند گروپ کے ارکان کو اپنے جرائم کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین میں غلام اور جنسی غلام بنانے کی صریحاً ممانعت ہے اور بعض حالات میں یہ اقدام انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آسکتے ہیں۔
"اس کا مطلب ہے کہ اس کے ذمہ دار مستقبل میں کسی بھی وقت گرفتار کیے جا سکتے ہیں ان پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ لہذا صرف اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب محفوظ ہیں تو وہ آئندہ دو سالوں، پانچ سالوں یا دس سالوں میں ایسے نہیں رہیں گے۔"
انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آنے والے اقدامات کے بارے جرائم کی عالمی عدالت نے طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔ ان میں "نفرت انگیز جرائم اور جو انسانی وقار پر سنگین حملے کے مترادف ہوں یا انسانیت کی سنگین تذلیل کے زمرے میں آتے ہوں، انھیں انسانیت کے خلاف جرائم تصور کیا جاتا ہے۔
کولولے کا بوکو حرام کی طرف سے ان لڑکیوں کی شادیوں کی مذمت کرتے کہنا تھا کہ مغوی بچیوں کی جبری شادیوں کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔
ادھر نائیجیریا کی حکومت پر وسیع پیمانے پر لڑکیوں کے اغوا کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے اور حکومت کو یہ کہہ کر ہدف بنایا جا رہا ہے کہ اس نے بچیوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے تھے۔
امریکہ لڑکیوں کی بازیابی کے لیے نائیجریا کو مدد فراہم کرنے کی پیشکش کر چکا ہے جسے اس افریقی ملک نے قبول کر لیا ہے۔
اس دہشت گرد گروپ نے نائیجیریا سے گزشتہ ماہ تین سو سے زائد طالبات کو اغوا کیا تھا اور ان کی طرف سے مزید آٹھ لڑکیوں کو قبضے میں لینے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
پہلے اغوا ہونے والی طالبات میں سے کچھ لڑکیاں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن اب ابھی 276 سے زائد لڑکیاں عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہیں۔
انسانی حقوق کے دفتر نے بوکوحرام کے رہنما کی طرف سے سامنے آنے والے وڈیو پیغام کی بھی شدید مذمت کی ہے جس میں عسکریت پسند کمانڈر نے مغوی لڑکیوں کو غلام قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں یا تو فروخت کر دیا جائے گا یا ان سے شادیاں کی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے ترجمان روپرٹ کولولے نے کہا کہ اس عسکریت پسند گروپ کے ارکان کو اپنے جرائم کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین میں غلام اور جنسی غلام بنانے کی صریحاً ممانعت ہے اور بعض حالات میں یہ اقدام انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آسکتے ہیں۔
"اس کا مطلب ہے کہ اس کے ذمہ دار مستقبل میں کسی بھی وقت گرفتار کیے جا سکتے ہیں ان پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ لہذا صرف اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب محفوظ ہیں تو وہ آئندہ دو سالوں، پانچ سالوں یا دس سالوں میں ایسے نہیں رہیں گے۔"
انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آنے والے اقدامات کے بارے جرائم کی عالمی عدالت نے طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔ ان میں "نفرت انگیز جرائم اور جو انسانی وقار پر سنگین حملے کے مترادف ہوں یا انسانیت کی سنگین تذلیل کے زمرے میں آتے ہوں، انھیں انسانیت کے خلاف جرائم تصور کیا جاتا ہے۔
کولولے کا بوکو حرام کی طرف سے ان لڑکیوں کی شادیوں کی مذمت کرتے کہنا تھا کہ مغوی بچیوں کی جبری شادیوں کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔
ادھر نائیجیریا کی حکومت پر وسیع پیمانے پر لڑکیوں کے اغوا کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے اور حکومت کو یہ کہہ کر ہدف بنایا جا رہا ہے کہ اس نے بچیوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے تھے۔
امریکہ لڑکیوں کی بازیابی کے لیے نائیجریا کو مدد فراہم کرنے کی پیشکش کر چکا ہے جسے اس افریقی ملک نے قبول کر لیا ہے۔