رسائی کے لنکس

جنگوں کے باعث ایک کروڑ سے زائد بچے بے گھر ہوئے


جنگوں کے باعث ایک کروڑ سے زائد بچے بے گھر ہوئے
جنگوں کے باعث ایک کروڑ سے زائد بچے بے گھر ہوئے

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے 50 سے زیادہ ملکوںمیں ایسے لوگوں کی تعداد دو کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہے جنہیں جنگوں کی وجہ سے گھر بار چھوڑنا پڑا ہے ۔ ان بے گھر لوگوں میں کم از کم نصف، یعنی ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ بچے ہیں۔ اقوامِ متحدہ حکومتوں اور انسانی بھلائی کا کام کرنے والے اداروں کے لیے ایسے رہنما اصول ترتیب دے رہی ہے جن سے ان لوگوں کی خصوصی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ وائس آف امریکہ کی مارگریٹ بشیر نے بے گھر ہو جانے والے دو بچوں سے بات کی جو اب بڑے ہو چکے ہیں۔

1990 کی دہائی کے آخری برسوں میں جب علیمہ دس برس کی تھیں ، ان کے متوسط درجے کے خاندان کو طالبان کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے افغانستان کے شہر مزار شریف میں اپنا آبائی گھر چھوڑنا پڑا۔ یہ لوگ پہلے دارالحکومت کابل میں آباد ہوئے۔ علیمہ اب اکیس برس کی ہو چکی ہیں۔ وہ کابل میں اپنی زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں’’مجھے یاد ہے کہ میں شروع کے چند مہینوں میں پہلے گریڈ میں داخل ہوئی۔ لیکن پھر میں کہیں نہیں جا سکتی تھی کیوں کہ اسکولوں پر بم گر رہے تھے۔ میری والدہ مجھے کہیں نہیں جانے دیتی تھیں کیوں کہ طالبان لوگوں کو پکڑ لیتے تھے اور ان کی بے عزتی کرتے تھے، اور لڑکی ہونے کی وجہ سے میرے لیے خطرہ اور بھی زیادہ تھا۔‘‘

لیکن جب یہ ظاہر ہو گیا کہ صورتِ حال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، تو علیمہ کے والدین نے اپنے آٹھ بچوں سمیت ہمسایہ ملک پاکستان میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ علیمہ کہتی ہیں کہ جب ہم کابل پہنچے تھے تو ہم کھاتے پینے گھرانے سے بے خانماں لوگ بن گئے تھے ۔ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا، نہ بجلی تھی۔ اس وقت میں نے سوچا تھا کہ حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتے۔ اور پھر ہم پاکستان منتقل ہوئے اور وہاں ہم صحیح معنوں میں بے گھر ہو گئے۔ ہمارے پاس نہ کھانے کو کچھ تھا نہ کوئی پیسہ تھا۔

آبادکاری کے ایک پروگرام کی مدد سے، علیمہ کا گھرانہ بالآخر امریکہ پہنچ گیا۔ یہ لوگ دہشت گردوں کے گیارہ ستمبر کے حملوں سے چند مہینے پہلےامریکہ پہنچے تھے۔ علیمہ نے بتایا کہ انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے انہیں کافی دشواری ہوئی، اور پھر گیارہ ستمبر کے بعد ہمیں محسوس ہوا کہ کیوں کہ ہم افغان ہیں، اس لیے ہمارے ساتھ لوگوں کا سلوک اچھا نہیں ہے ۔ لیکن ان دشواریوں کے باوجود انھوں نے خود کو اپنے نئے وطن میں ڈھال لیا ہے۔ آج کل وہ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں تیسرے سال میں ہیں، اور انہیں امید ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد فارمیسسٹ بن جائیں گی۔

32 سالہ جوزف کی کہانی اس سے بالکل مختلف ہے ۔وہ جنوبی سوڈان میں پلے بڑھے اور سات برس کی عمر میں ان کا خاندان تتر بتر ہو گیا۔ سوڈان کی طویل اور خون ریز خانہ جنگی میں، جوزف اپنی والدہ سے بچھڑ گئے اور سوڈان پیپلز لبریشن آرمی یاSPLA کے سپاہیوں کے ساتھ رہنے لگے۔ انھوں نے اپنا بچپن محاذِ جنگ کے اگلے مورچوں میں اور بے گھر لوگوں کے کیمپوں میں گذارا۔انہیں کوئی تعلیم نہیں ملی اور گذارے کے لیے بعض اوقات وہ چوہوں اور چمگاڈروں کا شکار کرنے پر مجبور تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ کبھی کسی بچے کو نہیں دیکھنا چاہیئے ۔ ’’میں نے بے گناہ لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھا ہے۔ سوڈان کی حکومت اور SPLA کے درمیان جنگ میں ہر طرف یہی ہو رہا تھا۔‘‘

جوزف کی زندگی اقوامِ متحدہ کے زیر انتظام بے گھر لوگوں کے کیمپ میں پہنچنے کے بعد بہتر ہونا شروع ہوئی۔ جولائی 2001 میں وہ امریکہ آگئے۔ انہیں امید ہے کہ اگلے سال وہ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں ڈگری لے لیں گے۔ لیکن انھوں نے بڑا مشکل وقت دیکھا ہے۔ پچیس برس سے وہ اپنی والدہ اور بہنوں سے نہیں ملے ہیں۔ 2005 میں خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد، ان سے رابطہ تو ہو گیا، لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ان سے مل آئیں۔ اس کے علاوہ سیاسی صورت حال بھی خراب ہے۔

اقوامِ متحدہ علیمہ اور جوزف جیسے بچوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے ۔ اس نے ان بچوں کے لیے حقوق اور ضمانتیں فراہم کی ہیں۔

رادیکا کماراسوامی جنگ سے متاثر ہونے والے بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہو یہ رہا ہے کہ جہاں کہیں کسی قسم کا تصادم یا لڑائی ہوتی ہے، مملکتیں اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اقوامِ متحدہ یہ ذمہ داری سنبھال سکتی ہے ۔ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے۔ یہ خود مختار ریاستوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سویلین آبادی اور اپنے شہریوں کی حفاظت کریں۔ ہم ان کی مدد کر سکتےہیں لیکن اصل ذمہ داری ان کی اپنی ہے۔

بچوں کے سلسلے میں جو رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ بے گھر ہونے والے بچوں کے حقوق اور آزادیاں وہی ہیں جو عام بچوں کی ہیں۔ ان کے مفاد کو اولیت دی جانی چاہیئے۔انہیں بنیادی ضرورتیں پوری کیئے جانے، معیارِ زندگی قائم رکھنے، جسمانی سلامتی، جنسی بد سلوکی ، اور انسانوں کی فروخت کے کاروبار اور جبری جسم فروشی سے حفاظت کی ضمانت ملنی چاہیئے۔ اقوام متحدہ حکومتوں پر یہ دباؤ بھی ڈال رہی ہے کہ گھرانے کے تمام افراد کو یکجا رکھا جائے، بچوں کی تعلیم کو یقینی بنایا جائے اور حسب ضرورت نفسیاتی اور سماجی مدد فراہم کی جائے ۔

XS
SM
MD
LG