واشنگٹن —
اقوام ِ متحدہ کے عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخدر براہیمی جمعرات کے روز جینیوا میں شام کی حکومت کے نمائندوں اور اپوزیشن کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔
لخدر براہیمی کی شامی حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں سے یہ ملاقات شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے کی ایک کاوش اور فریقوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کی ایک کاوش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
اس ملاقات میں لخدر براہیمی دونوں فریقوں کا موقف سنیں گے اور دونوں فریقوں کے درمیان براہ ِ راست مذاکرات کے اگلے مرحلے کا لائحہِ عمل طے کریں گے۔
ان مذاکرات کا آغاز جمعے کے روز ہونا تھا مگر لخدر براہیمی نے بدھ کے روز شام کانفرنس کے افتتاحی سیشن کے بعد اس امکان کو رد نہیں کیا تھا کہ شام کی حکومت اور اپوزیشن سے علیحدہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔
لخدر براہیمی کا کہنا تھا کہ شام کی حکومت اور اپوزیشن نے ’واضح اشارے‘ دئیے ہیں کہ دونوں فریق قیدیوں کی رہائی اور مقامی جنگ بندی کے لیے لائحہ ِ عمل طے کریں گے۔
شام امن مذاکرات کے پہلے روز 40 سے زائد وفود اکٹھے ہوئے۔ ماہرین اسے شام میں صدر بشار الاسد کے مستبقل کی تقسیم سے تعبیر کر رہے ہیں۔
شام کانفرنس کا مقصد شام میں عبوری حکومت کا قیام ہے جس کے بارے میں شام کے باغیوں اور اپوزیشن اور ان کے اتحادیوں جیسا کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت میں صدر بشار الاسد کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری طرف شام کی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اقتدار سے علیحدگی نہیں اختیار کریں گے۔
اقوام ِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو ہوا دے رہی ہے۔
اقوام ِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ انہیں شام امن مذاکرات سے کوئی فوری نتائج کی امید نہیں ہے مگر شام کے لوگ اس مصیبت میں پھنسے ہیں اور اپنے زندگیوں میں سکون چاہتے ہیں۔
لخدر براہیمی کی شامی حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں سے یہ ملاقات شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے کی ایک کاوش اور فریقوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کی ایک کاوش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
اس ملاقات میں لخدر براہیمی دونوں فریقوں کا موقف سنیں گے اور دونوں فریقوں کے درمیان براہ ِ راست مذاکرات کے اگلے مرحلے کا لائحہِ عمل طے کریں گے۔
ان مذاکرات کا آغاز جمعے کے روز ہونا تھا مگر لخدر براہیمی نے بدھ کے روز شام کانفرنس کے افتتاحی سیشن کے بعد اس امکان کو رد نہیں کیا تھا کہ شام کی حکومت اور اپوزیشن سے علیحدہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔
لخدر براہیمی کا کہنا تھا کہ شام کی حکومت اور اپوزیشن نے ’واضح اشارے‘ دئیے ہیں کہ دونوں فریق قیدیوں کی رہائی اور مقامی جنگ بندی کے لیے لائحہ ِ عمل طے کریں گے۔
شام امن مذاکرات کے پہلے روز 40 سے زائد وفود اکٹھے ہوئے۔ ماہرین اسے شام میں صدر بشار الاسد کے مستبقل کی تقسیم سے تعبیر کر رہے ہیں۔
شام کانفرنس کا مقصد شام میں عبوری حکومت کا قیام ہے جس کے بارے میں شام کے باغیوں اور اپوزیشن اور ان کے اتحادیوں جیسا کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت میں صدر بشار الاسد کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری طرف شام کی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اقتدار سے علیحدگی نہیں اختیار کریں گے۔
اقوام ِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو ہوا دے رہی ہے۔
اقوام ِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ انہیں شام امن مذاکرات سے کوئی فوری نتائج کی امید نہیں ہے مگر شام کے لوگ اس مصیبت میں پھنسے ہیں اور اپنے زندگیوں میں سکون چاہتے ہیں۔