بین الااقوامی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے، پاکستان نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں استحکام اور مشرق وسطیٰ کو درپیش چیلنجوں کا حل ثابت ہوگا۔
مشرق وسطیٰ کے موضوع پر اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے، پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ ’اس عظیم معاہدے پر اگر مکمل سنجیدگی کے ساتھ عملدرآمد ہو تو نہ صرف ایٹمی عدم پھیلاؤ میں مدد ملے گی، بلکہ علاقائی استحکام، تعاون اور معاشی شرح نمو میں اضافے کا باعث بنے گی۔
انھوں نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے باہمی مشاورت کی فضا قائم ہوگی اور خطے کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی راہ نکلے گی۔
مشرق وسطیٰ میں داعش کے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، ملیحہ لودھی نے ’نفرت آمیز نظریات اور تشدد کے خلاف جامع فوجی، سیاسی، معاشی اور سماجی حکمت عملی مرتب کرنے‘ کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ پورے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور آگے تک کے علاقے کے لئے خطرہ بن چکا ہے، جس کا صرف فوجی حل کافی نہیں۔
انھوں نے زور دیا کہ عراق میں داعش کا مقابلہ کرکے اس کا خاتمہ کیا جائے۔ لیکن، یہ کام صرف ریاست کر سکتی ہے فرقہ وارانہ ملیشیا نہیں۔ ’کامیابی صرف اسی صورت مل سکتی ہے کہ اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کے انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے‘۔
سفیر نے یقین دلایا کہ ’پائیدار امن کا قیام فوجی نہیں صرف سیاسی حل سے ہی ممکن ہے‘۔
شام کے بحران پر گفتگو کرتے ہوئے ملیحہ لودھی نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کی نگرانی میں ہونے والی مشاورت کا خیر مقدم کیا اور سنجیدہ سیاسی حل کی تلاش کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے یمن کی صورتحال پر پاکستان کی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی یہ صورتحال صرف شام تک محدود نہیں رہے گی۔ اس لئے تنازعے کے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لوٹنے کی ضرورت ہے۔ یمن کی قانونی حکومت کو بحال ہونا چاہئے۔ جس کے لئے سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
فلسطین کے مسئلے پر ملیحہ لودھی نے سیکورٹی کونسل سے1967 کی سرحدوں کے مطابق، ایک آزاد اور خودمختار فلسطنی ریاست کے قیام کے لئے مدت کے تعین کے ساتھ ایک قرارداد منظور کرنے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان دو ریاستوں کے قیام کو ہی خطے میں پائیدار امن کی راہ سمجھتا ہے۔