اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ میانمار کی مسلمان روہنگیا برادری کے افراد کو شہریت دینا ملک کی مغربی ریاست راخائین میں ناصرف امن کے حصول کے لیے اہم ہے بلکہ یہ اس علاقے کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین، فیلپو گرانڈی نے یہ بات میانمار کا سرکاری دورہ کرنے کے بعد بنکاک میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہی۔
روہنگیا برادری کو بدھ اکثریت کے ملک میانمار کی راخائین کی ریاست میں 2012ء سے امتیازی سلوک اور تشددکا سامنا رہا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی ہے، کو اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں منتقل ہونا پڑا۔ یہ لوگ اب بھی انہی کیمپوں میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
میانمار میں بسنے والے روہنگیا برادری کے افراد ایک طویل عرصے سے شہریت، نقل و حرکت کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ انہیں اکثر ہمسایہ ملک بنگلادیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن گردانا جاتا ہے اگرچہ ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو کئی نسلوں سے میانمار میں آباد ہیں۔
گرانڈی نے کہا کہ "روہنگیا مسلمان برادری ان قواعد و ضوابط کی وجہ سے متاثر ہورہی جو ان کی محرومیوں کا سبب بن رہے ہیں ۔ ۔۔اس میں آپ یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ غربت اور پسماندگی کی عمومی صورت حال راخائین کی ریاست میں ہر ایک پر اثر انداز ہو رہی ہے۔"
گرانڈی نے کہا کہ انہیں میانمار کی اعلیٰ رہنما آنگ سانگ سوچی کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ان کے ملک کے وہ تارکین وطن جو گزشتہ کئی دہائیوں سے تھائی لینڈ میں پناہ لیے ہوئے ہیں وہ وطن واپس آ سکتے ہیں۔
میانمار کے ایک لاکھ سے زائد شہری تھائی لینڈ میں سرحد کے قریب کیمپوں میں مقیم ہیں۔ میانمار کی فوج اور باغیوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی کی وجہ سے یہ لوگ تھائی لینڈ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
گزشتہ سال مینانمار میں آنگ سانگ سوچی کی سول حکومت کے قائم ہونے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں تاہم کئی علاقوں میں وقفے وقفے سے شروع ہونے والی لڑائی اور کسی امن سمجھوتے کی غیر موجودگی کی وجہ سے ان تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر اپنے ملک واپسی کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔