واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ صومالیہ میں مسلمان شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران افریقی ممالک کے تین ہزار فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جین ایلیسن نے کہا ہے کہ صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے دستوں میں اکثریت یوگینڈا اور برونڈی کے فوجیوں کی ہے اور ہلاک ہونے والے بیشتر فوجیوں کا تعلق بھی انہی دو ملکوں سے ہے۔
خیال رہے کہ افریقی یونین کے فوجی دستوں نے صومالیہ اور پڑوسی ملک ایتھوپیا کے افواج کی مدد سے شدت پسند تنظیم 'الشباب' کے خلاف حالیہ برسوں میں بڑی کاروائیاں کی ہیں اور تنظیم کو صومالی شہروں اور قصبوں سے باہر دھکیلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو میں اقوامِ متحدہ کے نائب سربراہ کا کہنا تھا کہ 'الشباب' کا خطرہ کم ضرور ہوا ہے لیکن یہ اب بھی موجود ہے اور صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے دستے وہاں قیامِ امن کے لیے اب بھی "ایک انتہائی اہم کردار" ادا کر رہے ہیں۔
افریقی ممالک کے فوجی دستے 2007ء میں صومالیہ پہنچے تھے جہاں انہوں نے کئی برس کی لڑائی کے بعد دارالحکومت موغادیشو اور ملک کےدیگر شہروں کا قبضہ 'الشباب' سے چھڑایا تھا۔
گوکہ دارالحکومت میں امن و امان کی صورتِ حال میں حالیہ مہینوں میں بہتری آئی ہے لیکن 'الشباب' اب بھی شہر میں وقفے وقفے سے دہشت گرد حملے اور بم دھماکے کرتی رہتی ہے۔
بحری قزاقوں کے باعث شہرت پانے والا مشرقی افریقہ کا یہ ملک صومالیہ گزشتہ 20 برسوں سے خانہ جنگی اور بحران کا شکار ہے۔
ملک میں گزشتہ برس بین الاقوامی برادری اور عالمی طاقتوں کی حمایت سے نئی حکومت وجود میں آئی ہے جسے ملک میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر بنانے میں مدد دینے کے لیے مختلف ملکوں نے حال ہی میں 300 ملین ڈالر دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جین ایلیسن نے کہا ہے کہ صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے دستوں میں اکثریت یوگینڈا اور برونڈی کے فوجیوں کی ہے اور ہلاک ہونے والے بیشتر فوجیوں کا تعلق بھی انہی دو ملکوں سے ہے۔
خیال رہے کہ افریقی یونین کے فوجی دستوں نے صومالیہ اور پڑوسی ملک ایتھوپیا کے افواج کی مدد سے شدت پسند تنظیم 'الشباب' کے خلاف حالیہ برسوں میں بڑی کاروائیاں کی ہیں اور تنظیم کو صومالی شہروں اور قصبوں سے باہر دھکیلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو میں اقوامِ متحدہ کے نائب سربراہ کا کہنا تھا کہ 'الشباب' کا خطرہ کم ضرور ہوا ہے لیکن یہ اب بھی موجود ہے اور صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے دستے وہاں قیامِ امن کے لیے اب بھی "ایک انتہائی اہم کردار" ادا کر رہے ہیں۔
افریقی ممالک کے فوجی دستے 2007ء میں صومالیہ پہنچے تھے جہاں انہوں نے کئی برس کی لڑائی کے بعد دارالحکومت موغادیشو اور ملک کےدیگر شہروں کا قبضہ 'الشباب' سے چھڑایا تھا۔
گوکہ دارالحکومت میں امن و امان کی صورتِ حال میں حالیہ مہینوں میں بہتری آئی ہے لیکن 'الشباب' اب بھی شہر میں وقفے وقفے سے دہشت گرد حملے اور بم دھماکے کرتی رہتی ہے۔
بحری قزاقوں کے باعث شہرت پانے والا مشرقی افریقہ کا یہ ملک صومالیہ گزشتہ 20 برسوں سے خانہ جنگی اور بحران کا شکار ہے۔
ملک میں گزشتہ برس بین الاقوامی برادری اور عالمی طاقتوں کی حمایت سے نئی حکومت وجود میں آئی ہے جسے ملک میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر بنانے میں مدد دینے کے لیے مختلف ملکوں نے حال ہی میں 300 ملین ڈالر دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔