اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اُن سے جنوبی سوڈان میں سلامتی کی مجموعی صورت حال پر بات چیت کی۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق وزیراعظم نواز شریف سے بان کی مون کا رابطہ جنوبی سوڈان کے معاملے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عالمی رہنماؤں سے رابطوں کا حصہ ہے۔
اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل اہلکاروں میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان کے باوردی اہلکاروں کی ہے۔ حکام کے مطابق اقوام متحدہ کے امن مشنز میں لگ بھگ 9000 پاکستانی اہلکار خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تجویز پر سلامتی کونسل نے منگل کو ایک قرار داد منظور کی جس میں جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت مزید 5,500 فوجی بھیجنے کی منظوری دی گئی۔
قراردار کی منظوری کے بعد بان کی مون عالمی رہنماؤں سے اس ضمن میں حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ بان کی مون نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ جنوبی سوڈان کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے لیے اضافی دستوں کی تعیناتی میں وقت لگ سکتا ہے لیکن اُنھوں نے جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر اور اُن کے مخالف سابق نائب صدر رئیک ماچار پر زور دیا ہے کہ وہ اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
امریکہ بھی جنوبی سوڈان کے ان رہنماؤں سے کہہ چکا ہے کہ وہ لڑائی ختم کر کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں۔
جنوبی سوڈان میں گزشتہ ہفتے بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے لڑائی شروع ہوئی تھی۔ صدر سلوا کیر نے بغاوت کی کوشش کا الزام ملک کے سابق نائب صدر اور اُن کے سیاسی حریف رئیک ماچار پر لگایا ہے۔
لڑائی میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور لگ بھگ 80 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے تقریباً 45 ہزار افراد اقوام متحدہ کے امن مشن کی تنصیبات میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق وزیراعظم نواز شریف سے بان کی مون کا رابطہ جنوبی سوڈان کے معاملے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عالمی رہنماؤں سے رابطوں کا حصہ ہے۔
اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل اہلکاروں میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان کے باوردی اہلکاروں کی ہے۔ حکام کے مطابق اقوام متحدہ کے امن مشنز میں لگ بھگ 9000 پاکستانی اہلکار خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تجویز پر سلامتی کونسل نے منگل کو ایک قرار داد منظور کی جس میں جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت مزید 5,500 فوجی بھیجنے کی منظوری دی گئی۔
قراردار کی منظوری کے بعد بان کی مون عالمی رہنماؤں سے اس ضمن میں حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ بان کی مون نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ جنوبی سوڈان کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے لیے اضافی دستوں کی تعیناتی میں وقت لگ سکتا ہے لیکن اُنھوں نے جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر اور اُن کے مخالف سابق نائب صدر رئیک ماچار پر زور دیا ہے کہ وہ اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
امریکہ بھی جنوبی سوڈان کے ان رہنماؤں سے کہہ چکا ہے کہ وہ لڑائی ختم کر کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں۔
جنوبی سوڈان میں گزشتہ ہفتے بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے لڑائی شروع ہوئی تھی۔ صدر سلوا کیر نے بغاوت کی کوشش کا الزام ملک کے سابق نائب صدر اور اُن کے سیاسی حریف رئیک ماچار پر لگایا ہے۔
لڑائی میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور لگ بھگ 80 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے تقریباً 45 ہزار افراد اقوام متحدہ کے امن مشن کی تنصیبات میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔