سینکڑوں سکھوں نے پیر کی دوپہر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کےباہرمظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ بھارتی حکومت کو ایک بے گناہ انسان کے’عدالتی قتل‘ سےروکے۔
مظاہرین کے مطابق بھارتی حکومت نے پروفیسر دویندرپال بھلّر نامی ایک سکھ کو انڈیا میں بم حملے کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر انہیں عدالت کے ذریعے سزائے موت دلوا دی ہے۔
اِس مظاہرے کا اہتمام کرنے والوں میں ایک تنظیم ’سکھس فار جسٹس‘ یا سکھ برائے انصاف بھی شامل ہے جِس کے قانونی مشیر گرپنت ونت پنون کا کہنا ہے کہ بھارت نے تشدّد کے خلاف اقوام متحدہ کی دستاویز پر دستخط نہیں کیے اور بھارتی حکومت ان کے بقول اکثر زیر حراست افراد پر تشدد کرتی ہے۔
پروفیسر بھلّر کے بھائی تجندرپال سنگھ بھلّر نے ایک بیان میں مذکورہ مقدمے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سنہ1991 میں ان کے بھائی کو بم حملے کے ایک کیس میں ملوّث کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ عدالت نے پروفیسر بھلّر کو اُس کیس میں برّی کر دیا تھا لیکن کاروائی کے دوران اُن کے والد پر بھارتی پولیس نے اتنا تشدد کیا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مسٹر بھلّر کے مطابق اُن کے بھائی پروفیسر بھلّر سکھوں کے خلاف بھارتی پولیس کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں شامل تھے اور اپنے والد کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کا کیس عدالت تک لے جانا چاہتے تھے جس کی وجہ سے بھارتی پولیس نے انہیں 1993 میں مسٹر بھلّر کے بقول دوبارہ ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر لیا۔
پروفیسر بھلّر نے انڈیا سے فرار ہو کر جرمنی میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن جرمنی کی حکومت نے انہیں واپس بھارتی حکام کے حوالے کر دیا۔ مسٹر بھلّر کے مطابق بھارتی پولیس نے تشدد کے دوران ان کے بھائی سے سادہ کاغذات پر دستخط کرائے جن پر بعد میں خود جرم کا اعتراف درج کر دیا۔
وائس آف امریکہ نے نیو یارک اور واشنگٹن میں بھارتی حکام سے اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی البتہ ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
انڈیا میں پروفیسر بھلّر کو آزادیِ خالصتان تحریک کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں 2001 میں دلّی ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی۔ بھارتی حکام کے مطابق وہ نہ صرف 1993 میں دلی میں انڈین یوتھ کانگریس کے دفاتر کے نزدیک بم حملے کے مجرم ہیں بلکہ اُن پر دیگر بم حملوں میں ملوّث ہونے کا شبہ بھی کیا جاتا ہے۔