اقوام متحدہ نے افغانستان کے صوبے خوست اور کنڑ میں ہونے والے فضائی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے افغانستان کے لیے معاون مشن (یوناما) نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں واضح کیا ہے کہ ان حملوں میں بچے اور خواتین بھی نشانہ بنے ہیں۔ بیان میں اس بات پر زور دیا کہ تنازعات میں عام شہریوں کو کبھی بھی ہدف نہیں بنانا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق زمینی حقائق اور نقصانات کے حوالے سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب طالبان حکام نے افغان سر زمین پر پاکستان کی جانب سے ہونے والی بم باری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس اقدام کو ظالمانہ اور افغان دشمنی قرار دیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو جاری کردہ آڈیو پیغام میں ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ افغانستان کی خود مختاری اور اس طرز کے حملوں کو روکنے کے لیے تمام آپشنز پر کام کر رہے ہیں۔
طالبان ترجمان نے اپنے پیغام میں پاکستان پر واضح کیا کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو یہ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہو گی بلکہ یہ پورے خطے میں عدم و استحکام کا باعث بنے گی۔
یاد رہے کہ طالبان ترجمان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہفتے کی صبح افغانستان کے صوبہ خوست اور کنڑ میں مبینہ طور پر پاکستان کے جنگی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔
پاکستان کی فوج کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے تاہم اتوار کے روز پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ کچھ عرصے سے افغانستان سے پاکستان کے سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دفترِ خارجہ کے مطابق حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے متعدد بار افغانستان سے بارڈر محفوظ بنانے کی درخواست کی کیوں کہ دہشت گرد افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی افواج کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں افغانستان کی جانب سے لگائے جانے والے جنگی طیاروں کی بمباری کے الزامات کے حوالے سے ذکر نہیں ہے۔
دفترِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان اور افغانستان مختلف اداروں کے ذریعے اپنی مشترکہ سرحد پر مؤثر تعاون اور سیکیورٹی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے سرحدی علاقوں میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) تسلسل کے ساتھ پاکستان کی چوکیوں پر حملے کر رہی ہے جس کے نتیجے میں کئی پاکستانی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی فورسز پر مختلف حملوں میں نو سیکیورٹی اہل کار ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے متعدد بار افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں اور سرحد پار کارروائیوں کی روک تھام کے بارے میں کہا گیا تاہم حکام کا مؤقف ہے کہ اس بابت پاکستان کی درخواست کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
اس دوران ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے بعض سینئر جنگجو بشمول سابق ترجمان خالد بلتی کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔
اسی طرح دسمبر میں راکٹ حملے کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا گیا تھا۔ جس میں ٹی ٹی پی کے سینئر کمانڈر مولوی فقیر محمد کے ٹھکانے کو صوبہ کنڑ میں نشانہ بنایا گیا تھا تاہم وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔
صوبہ کنڑ اور خوست پر بمباری کے واقعات پر بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ پاکستان کی یہ کارروائی ٹی ٹی پی کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں کا ردِ عمل ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ پاکستانی فورسز کی جانب سے سرحد پار شیلنگ کا سلسلہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد بھی جاری ہے مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے افغان حدود کے اندر گھس کر اتنی بڑی سطح پر کوئی کارروائی کی ہے۔
عبدالسید کے مطابق اس سے یقیناً طالبان حکومت پر افغان عوام اور ان کے حامیوں کی جانب سے ردِ عمل کے لیے شدید دباؤ آئے گا جو کہ یقیناََ طالبان حکومت کے لیے مزید مشکلات کا مؤجب ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شمالی وزیرستان سے رکن پارلیمنٹ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے پاکستان کی ایئر فورس کی بمباری کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کارروائی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خطاب میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ اس حملے میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ایسے حملوں کو روکنا ہو گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ جنگی طیاروں کی بمباری کے باعث پہلے ہی شہر کے شہر ملیا میٹ ہو چکے ہیں اور ان کا مداوا ابھی تک نہیں ہوا اور ایسے میں نئے محاذ کھولنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق عوام میں خوست اور کنڑ پر کیے جانے والے حملوں کے حوالے سے شدید غصہ پایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ہفتے کے روز پاکستانی طیاروں کی بمباری کے خلاف سینکڑوں افراد نے صوبہ خوست میں مظاہرہ کیا جس میں پاکستان مخالف نعرے بازی کی گئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صوبۂ خوست کے مقامی صحافی عصمت اللہ حلیم نے بتایا کہ مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ اس مسئلے کو سفارتی طریقے سے اٹھائے اور اگر پاکستان کی جانب سے کوئی مؤثر جواب سامنے نہیں آتا تو پھر جوابی کارروائی کی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ علاقے کے عوام اور عمائدین کا کہنا تھا کہ اگر اس حوالے سے حکومت کچھ نہیں کرتی تو پھر وہ خود ہی پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔