رسائی کے لنکس

کراچی میں چوتھی عالمی اردو کانفرنس شروع


کراچی میں چوتھی عالمی اردو کانفرنس شروع
کراچی میں چوتھی عالمی اردو کانفرنس شروع

'آرٹس کونسل آف پاکستان' کے زیرِ اہتمام کراچی میں 'چوتھی عالمی اردو کانفرنس' کا آغاز ہوگیا ہے جس میں پاکستان سمیت کئی ممالک سے آئے ہوئے ادیب، شاعر، دانشور، نقاد اور ماہرینِ زبان و ادب مختلف موضوعات پر مقالات پیش کریں گے۔

منگل کو ہونے والے کانفرنس کی افتتاحی نشست کو معروف شاعر فیض احمد فیض سے منسوب کیا گیا تھا جن کی پیدائش کے سو سال مکمل ہونے پر ادبی حلقوں کی جانب سے 2011ء کو 'فیض صدی' کے طور پر منایا جارہا ہے۔

'بدلتا عالمی تناظر اور فیض کی شاعری' کے موضوع پر ہونے والی افتتاحی نشست سے صدارتی خطاب میں اردو کے معروف شاعر اور جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ فیض نے اپنے اشعار میں اپنے زمانے کے کرب کا اظہا ر کیا ہے اور ان کا فلسفہ ایک تحر یک بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اردو شاعری کے منظر نامے میں فیض ایک بہت بڑے اور اہم شاعر ہیں جن کی اصل خو بی ان کی فکر کی وسعت ہے جس کی وجہ ان کا تاریخی شعور اور اپنے عہد سے واقفیت ہے۔

پیرزادہ قاسم کا کہنا تھا کہ تخلیق کار کی بڑائی کا تعین اس کے شعور کی وسعت اور گیرائی کرتی ہے۔

ہندوستان سے آنے والے ممتاز ادیب اور نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی نےفیض احمد فیض کی شاعری پر کلیدی خطبہ دیتے ہوئے فیض کو ایک منفرد اور مختلف شاعر اور ان کے کلام کو عصر حاضر کا تحفہ قرار دیا۔

ڈاکٹر حنفی کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض اپنے دور پر گہری نظر رکھنے وا لے شاعر تھے جنہوں نے حالات کے اتار چڑ ھاؤ کے سبب ذ ہن میں آنے والے خیالات کو اپنے شعر وں میں ڈھالا اور ماضی کے تجر بے سے حال کا احاطہ کرکے اسے اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔

اردو کے معروف شاعر اور نقاد پروفیسر سحر انصاری نے اپنے خطبے میں کہا کہ فیض نے 1930ء کی دہائی میں اپنے آغازِ جوانی میں رومانی خیالات سے نکل کر غمِ زمانہ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

انہوں نے کہا کہ فیض کی شاعری میں آخر تک تھکن یا شکستگی نہیں آئی اور وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ اچھے حالات کی امید سے بندھے رہے۔

اس سے قبل کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کانفرنس کے میزبان اور آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے کہا کہ بے شمار مسائل اور نامسائد حالات کے باوجود کراچی میں مسلسل چوتھے برس اردو کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس کا مقصد، ان کے بقول، اردو زبان و ادب کی ترویج اور نئی نسل سے اس کی واقفیت بڑھانا اور مشرقی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینا ہے۔

انہوں نے اردو کے بطورِ قو می زبان عملی نفاذ پر زور دیتے ہوئے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے اور سائنسی مضامین کے اردو ترجمے کی ضرورت پر زور دیا۔ احمد شاہ کے بقول پاکستان میں طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو ان کی زبان میں تعلیم دی جائے تاکہ تعلیم کے ساتھ شعور بھی منتقل ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ زبان محبت کے فروغ کا ذریعہ ہے اور اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے درمیان تصادم کے بجائے مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

چار روزہ کانفرنس کے چار دنوں کو اردو کے چار بڑے شعراء – غالب ، میر، اقبال اور فیض - سے منسوب کیا گیا ہےجب کہ اس دوران اردو فکشن، جدید شاعری اور ذرائع ابلاغ کے مسائل جیسے موضوعات پر بھی نشستیں منعقد ہوں گی۔

XS
SM
MD
LG