واشنگٹن —
اُس امریکی شخص نے استغاثے سے سمجھوتا طے کر لیا ہے، جس میں موت کی سزا سے بچنے کے لیے ملزم نے اقبالِ جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُس نے ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں تین خواتین کو اپنے گھر میں دس برسوں تک اغوا کیے رکھا۔
وہ اِس بات پر رضامند ہے کہ باقی عمر جیل کاٹے، جِن الزامات کی اضافی سزا 1000برس قید ہے۔
سابق اسکول بس ڈرائیور، ایرئیل کاسٹرو ، جِن کی داڑھی چٹی ہو چکی ہے، جیل کے نارجنی رنگ کی مخصوص وردی میں ملبوس، جمعے کے روز کیلولینڈ کی ایک عدالت میں پیش ہوئے۔
اُنھوں نے 937 الزامات کا اقبالِ جرم کیا، جِن میں خواتین کا اغوا، اُنھیں زنجیروں میں جکڑے رکھنا اور زنا بالجبر کے الزامات شامل ہیں۔ مئی کے اوائل میں تین میں سے ایک خاتون گھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئی، جس کے بعد پولیس نے چھاپہ مار کر باقی دو خواتین کو رہا کرا لیا تھا۔
تریپن برس کے کاسترو نے قتل کے ایک مقدمے کا بھی اقرار کیا، جس میں ملزم نے اُس خاتون کو بُری طرح سے زدو کوب کیا، جو حاملہ تھیں اور مار پیٹ کے باعث اُن کا حمل ضائع ہوا۔
گھر کی قید میں رہتے ہوئے ایک خاتون کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، جو اب چھ برس کی ہیں۔
اس سے پیشتر عدالت کے سامنے پیشی کے دوران، کاسترو نے اپنا سر جھکائے رکھا اور عدالت اور اپنے وکیلوں سے آنکھ تک نہیں ملا پائے۔ لیکن، اقبالِ جرم کے دوران، سماعت کرنے والے جج کے کئی سوالات کے جواب دیے اور بتایا کہ جب اُنھیں گرفتار کیا گیا اُنھیں پتا تھا کی اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ، مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ مجھے میرے کیے کی سزا ملے گی۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ مقدمے میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو اُن کی سمجھ سے بالا تر ہیں، کیونکہ میں جنسی مسائل میں گھرا ہوا تھا۔
سنہ 2002سے 2004کے دوران اغوا کی گئی تین خواتین، امندا بیری، گینا ڈی جیسس اور مشیل نائیٹ میں سے کوئی بھی عدالتی کارروائی کے دوران پیش نہیں ہوئیں۔
اُنھوں نے حال ہی میں ایک وڈیو جاری کی ہے، جس میں اُن پر بیتنے والےسخت آزمائش کے دِنوں پر ہمدردی ظاہر کرنے پر اُنھوں نے کلیولینڈ کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔
وہ اِس بات پر رضامند ہے کہ باقی عمر جیل کاٹے، جِن الزامات کی اضافی سزا 1000برس قید ہے۔
سابق اسکول بس ڈرائیور، ایرئیل کاسٹرو ، جِن کی داڑھی چٹی ہو چکی ہے، جیل کے نارجنی رنگ کی مخصوص وردی میں ملبوس، جمعے کے روز کیلولینڈ کی ایک عدالت میں پیش ہوئے۔
اُنھوں نے 937 الزامات کا اقبالِ جرم کیا، جِن میں خواتین کا اغوا، اُنھیں زنجیروں میں جکڑے رکھنا اور زنا بالجبر کے الزامات شامل ہیں۔ مئی کے اوائل میں تین میں سے ایک خاتون گھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئی، جس کے بعد پولیس نے چھاپہ مار کر باقی دو خواتین کو رہا کرا لیا تھا۔
تریپن برس کے کاسترو نے قتل کے ایک مقدمے کا بھی اقرار کیا، جس میں ملزم نے اُس خاتون کو بُری طرح سے زدو کوب کیا، جو حاملہ تھیں اور مار پیٹ کے باعث اُن کا حمل ضائع ہوا۔
گھر کی قید میں رہتے ہوئے ایک خاتون کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، جو اب چھ برس کی ہیں۔
اس سے پیشتر عدالت کے سامنے پیشی کے دوران، کاسترو نے اپنا سر جھکائے رکھا اور عدالت اور اپنے وکیلوں سے آنکھ تک نہیں ملا پائے۔ لیکن، اقبالِ جرم کے دوران، سماعت کرنے والے جج کے کئی سوالات کے جواب دیے اور بتایا کہ جب اُنھیں گرفتار کیا گیا اُنھیں پتا تھا کی اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ، مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ مجھے میرے کیے کی سزا ملے گی۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ مقدمے میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو اُن کی سمجھ سے بالا تر ہیں، کیونکہ میں جنسی مسائل میں گھرا ہوا تھا۔
سنہ 2002سے 2004کے دوران اغوا کی گئی تین خواتین، امندا بیری، گینا ڈی جیسس اور مشیل نائیٹ میں سے کوئی بھی عدالتی کارروائی کے دوران پیش نہیں ہوئیں۔
اُنھوں نے حال ہی میں ایک وڈیو جاری کی ہے، جس میں اُن پر بیتنے والےسخت آزمائش کے دِنوں پر ہمدردی ظاہر کرنے پر اُنھوں نے کلیولینڈ کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔