افغانستان کے لئے امریکہ کے نامزد سفیر ریان سی کروکر نے بد عنوانی کو دہشت گردی جیسا بڑا مسئلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح افغانستان میں غیر فوجی حکمت عملی کو موثر اور شفاف بنانا ہوگا ۔ یہ بات انہوں نے امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے افغانستان کے لئے اپنی نامزدگی کے حوالے سےہونےو الی سماعت کے دوران کہی۔ یہ سماعت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے ، جب وائٹ ہاوس کی جانب سے اس ہفتے کے شروع میں تصدیق کی گئی ہے کہ صدر اوباما افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بارے میں جلد اہم فیصلے کا اعلان کرنے والے ہیں ۔
61 سالہ ریان سی کروکر مشرق وسطی کے لئے انتہائی تجربہ کارامریکی سفارتکار سمجھے جاتے ہیں ۔ عراق ، پاکستان، کویت ، لبنان اور شام میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ روانی سے عربی بولنے والے ریان سی کروکر قطر، ایران اور مصر میں بھی اہم سفارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ۔ صدر اوباما نے ریان سی کروکر کو افغانستان کے لئے امریکی اہداف کی نمائندگی سونپنے کی تجویز پیش کی ہے اور امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے توثیق کے بعد افغانستان میں موجودہ امریکی سفیر کارل آئیکن بیری کی جگہ لیں گے ۔
اپنی سماعت کے دوران کا کہناتھا کہ میری پہلی زمہ داری ہوگی کہ افغانستان میں ہماری غیر فوجی حکمت عملی موثر اور شفاف ہو۔ دوسرے میں افغان حکومت کے ساتھ مزید بہتر تعلقات چاہتا ہوں تاکہ ان کے ساتھ مل کر افغانستان کی بحالی کے لئے کام کیا جائے ، تیسرےہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو اور اقوام متحدہ جیسے دیگر پارٹنرز کے ساتھ تعاون مزید بڑھے۔ ان سب اقدامات کا مقصد افغانستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا ہے تاکہ مستقبل میں اپنے ملک کو چلانے کی ذمہ داری افغان خود اٹھا سکیں ۔
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے افغانستان کے بارے میں ریان سی کروکر نے اپنا موقف اس وقت پیش کیا ہے جب بدھ کو کانگریس کی پیش کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں بحالی اور تعمیر نو کی کوششیں صرف محدود حد تک ہی کامیاب ہوئی ہیں اور گزشتہ دس سال میں امریکی حکومت نے افغانستان کی تعمیر و ترقی پر19 ارب ڈالر کی جو خطیر رقم خرچ کی ہے ، اس کا بڑا حصہ مقامی معیشت کو سہارا دینے اور بد عنوانی کی نذر ہوتا رہا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ مجھے یاد ہے کہ عراق میں لوگ کہتے تھے کہ بد عنوانی دہشت گردی جتنے بڑے مسائل پیدا کر سکتی ہے ، بد عنوانی کی وجہ سے عوام اپنی حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے اور لوگ طالبان جیسے عناصر کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔
دسمبر 2009ء میں صدر اوباما کی جانب سے 30 ہزار مزید امریکی فوج افغانستان بھیجے جا نے کے بعد وہاں امریکی فوج کی تعداد ایک لاکھ ہو چکی ہے۔ صدر اوباما نے اگلے مہینے کی بیس تاریخ سے افغانستان سےامریکی فوجوں کی واپسی کے آغاز کا اعلان کر رکھا ہے اور امریکی وزیردفاع رابرٹ گیٹس ابتدائی طور پر افغانستان سے صرف امریکی فوج کا امدادی فوجی عملہ واپس بلانے کے حق میں ہیں۔
ریان سی کروکر نے نو سال پہلے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعدبھی کابل کے امریکی سفارت خانے میں عارضی سفیر کے طور کام کیا تھا ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لئے اگر ریان سی کروکر کی تعیناتی کی توثیق ہو گئی تو وہ امریکی پالیسی کے اس انتہائی اہم مرحلے پر امریکی فوج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹرئیس کے ساتھ افغانستان میں دوبارہ وہی ٹیم بنا سکتے ہیں جس نے عراق سے امریکی فوج کے انخلاء کی راستہ ہموار کیا تھا ، اور جسے ان کی اب تک کی سب سے مشکل سفارتی تعیناتی سمجھا جاتا ہے۔