سابق امریکی صدر بل کلنٹن کہتے ہیں کہ ایڈز کے خلاف جنگ دراصل دنیا بھر میں صحت عامہ کے وسائل بہتر بنانے کی جنگ ہے۔
پیر کی صبح یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں18 ویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایڈز کے خلا ف مہم سے بہت سی دیگر بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ ان کے بقول ” اس سےٹی بی اور ملیریا کے خلاف جنگ میں مدد ملی ہے۔دنیا بھر میں صحت عامہ کے شعبوں میں بہتری آئی ہے۔ اس کی وجہ سے حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے صحت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی شروع کر دی ہے اور ایڈز کے خلاف جنگ اگر صحیح طور پر لڑی جائے تو حاملہ ماؤں اور ان کے نوزئیدہ بچوں کی صحت کوبہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ سابق صدر کلنٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایڈز یا عمومی طور پر صحت عامہ پر پیسہ لگانا ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا منافع بہت زیادہ ہے کیونکہ بیماریوں کے بچاؤ پر بہت کم رقم خرچ کر کے بیماریوں کے علاج پر اٹھنے والے کثیر اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔
محدود مالی وسائل پر بات کرتے ہوئے سابق صدر کلنٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور دیگر امیر ممالک کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب وہ کسی ملک کو امداد دیں تو اس رقم کا ایک بڑا حصہ عوام تک پہنچے کیونکہ امداد یا تحقیق کے لیے مختص کیے جانے والی بہت سی رقوم غیر ضروری میٹنگز یا رپورٹس پر خرچ ہو جاتی ہیں اور مریضوں تک اس کے فوائد نہیں پہنچتے۔
دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے صدر کلنٹن نے زور دیا کہ مستقبل میں صرف امیر ممالک کی امداد پر انحصار کرنے کے بجائے ایڈز کے خلاف جنگ کے لیے دیگر ذرائع سے بھی سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں امدادی فنڈ اکٹھا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں سے تھوڑی تھوڑی مدد مانگی جائے کیونکہ دنیا میں لوگوں کی اکثریت یک مشت بڑی رقم عطیے میں نہیں دے سکتے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے دیے ہوئے چند ڈالروں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ لاکھوں لوگ اس مد میں ان کی طرح تھوڑے تھوڑے پیسے دے رہے ہیں تو وہ بھی خوشی سے پانچ یا دس ڈالر دینے پر راضی ہو جائیں گے۔
عالمی ایڈز کانفرنس میں دنیا کے 185 ممالک سے بیس ہزار سے زائد افراد شریک ہیں۔ یہ کانفرنس پورا ہفتہ جاری رہے گی۔