امریکہ میں ہونے والے ایک نئے رائے عامہ کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت قانون کا نفاذ کرنے والے اہل کاروں کے ساتھ ہے، جنھوں نے ٹیکنالوجی کے بڑے ادارے، ’ایپل‘ سے تقاضا کیا تھا کہ گذشتہ سال کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں شوٹنگ کے واقعے میں ملوث حملہ آور کے ٹیلی فون پر ’انکرپٹڈ‘ پیغامات کا توڑ نکالنے میں مدد فراہم کی جائے۔
’پیو رسرچ سینٹر‘ نے پیر کے روز کہا ہے کہ رائے عامہ کا یہ جائزہ جسے حالیہ دِٕنوں مکمل کیا گیا، اس میں 1000سے زائد افراد شامل ہیں، جِن میں سے 51 فی صد نے کہا ہے کہ ایپل کو چاہیئے کہ وہ سید رضوان فاروق کے زیرِ استعمال آئی فون کا تالا توڑنے میں مدد کرے؛ جب کہ 38 فی صد کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے بالآخر آئی فون صارفین کی سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ 11 فی صد حضرات ایسے ہیں جنھوں نے کوئی رائے نہیں دی۔
دریں اثنا، فاروق کے ہاتھوں قتل ہونے والے 14 افراد کے مقدمے میں شامل کچھ لوگوں کی وکالت کرنے والے ایک وکیل نے کہا ہے کہ وہ بہت جلد ایک بیان حلفی داخل کرنے والے ہیں جس میں اُس جج کے حکم نامے کی حمایت کی جائے گی جس میں فاروق کے موبائل فون کے لاک کو توڑنے میں مدد فراہم کرنے کی حمایت کی جائے گی۔ فاروق امریکہ میں پیدا ہونے والے مسلمان تھا، جن کی پاکستانی نژاد بیوی، تشفین ملک بھی مبینہ طور پر اس جرم میں شریک تھی۔
ایپل اس حکم نامے کے خلاف ہے، اور ادارے کے چیف اگزیکٹو، ٹِم کوک نے پیر کے روز ادارے کے صارفین کو بتایا کہ امریکی حکومت کا مطالبہ ’درست نہیں‘۔
اپنے لاکھوں صارفین کو تحریر کردہ ایک کھلے خط میں، کوک نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے اس بڑے ادارے کی دہشت گردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ایپل قانون کا نفاذ کرنے والے امریکی حکام کی درخواست مان کر اگر فاروق کے بند آئی فون کو کھول دیا جائے، تو اس سے مستقبل میں آئی فون کے دیگر صارفین کے فون کی بھی تلاش لی جاسکے گی۔
کوک نے کہا کہ مداخلت کے ایسے عمل سےایپل کے دیگر صارفین بھی محفوظ نہیں رہیں گے اور اُن کے مالی اور صحت کے ریکارڈ تلاش ہوسکیں گے، وہ وہ کہاں موجود ہیں اور وہ کیا تصاویر کھینچ رہے ہیں۔
کوک کے بقول، ’’کوئی بھی حقیقت پسند شخص اسے قابل قبول قرار نہیں دے گا‘‘۔
اپیل کی جانب سے امریکی محکمہٴ انصاف کا مطالبہ ماننے سے انکار نامہ پیر کے روز وفاقی عدالت میں پہنچ گیا، جس میں فاروق کے ٹیلی فون کا لاک کھولنے کے لیے کہا گیا تھا۔
ماجسٹریٹ سطح کے جج نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایپل فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کو وہ سوفٹ ویئر فراہم کردے، تاکہ فاروق کو ملازم رکھنے والے کی جانب فراہم کردہ موبائل فون کا ’پاس ورڈ‘ میسر آسکے۔
تاہم، ایپل نے اس سے انکار کردیا، یہ کہتے ہوئے کہ ایسی راہ نکالنا ’’غیرمعمولی‘‘ بات ہوگی، جس سوفٹ ویئر کی مدد سے کسی بھی آئی فون کے اندر داخل ہوا جا سکتا ہے، جب کہ ادارے کے صارفین ہیکنگ کا شکار ہوسکتے ہیں۔