وہ وقت زیادہ دور نہیں جب امریکی شہری شام میں آسمان میں ایسے ترسیلی ڈرونز کی بھرمار دیکھیں جو کھانا یا کوئی اور چیز لے کر آ رہے ہوں۔
امریکہ میں فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) نے پیر سے ڈیلیوری ڈرونز یعنی ترسیلی ڈرونز کے آبادی والے علاقوں میں استعمال کی اجازت دے دی ہے۔
بہت سے لوگ اس پیش رفت کو ڈرون ڈیلیوری کی وسیع تر سطح پر قبولیت کی جانب اہم قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریٹر اسٹیو ڈکسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نئے قوانین تحفظ سے متعلق خطرات دور کرتے ہوئے ڈرونز کو مستقبل میں ہماری فضاؤں کا حصہ بنانے کا راستہ پیدا کریں گے۔
ان کے بقول یہ ڈرونز ہمیں اس مقام کے قریب لے آئے ہیں جب ہم پیکجز کی ترسیل کے لیے ڈرونز آپریشن دیکھیں گے۔
یو پی ایس اور امیزون جیسی ترسیلی کمپنیاں کئی برسوں سے اس ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ دونوں کمپنیوں نے کرونا وائرس کے دنوں میں زیادہ منافع کمایا ہے کیوں کہ امریکیوں نے عام اشیائے خورونوش سمیت ہر چیز گھر پر منگوانا شروع کر دی۔
الفابیٹ ونگز نے بھی ڈرون ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے۔
ایف اے اے کا کہنا ہے کہ نئے قواعد و ضوابط مزید پیچیدہ ڈرون آپریشن کے لیے ضروری رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
ایف اے اے کے رولز کے مطابق ایک خاص وزن سے زیادہ کے ڈرونز میں ریموٹ کو شناخت کرنے کی اہلیت کے علاوہ حادثے سے بچانے والی لائٹس بھی ہونی چاہئیں۔
اسی طرح ایف اے اے کے مطابق ڈیلیوری ڈرون کے گھومتے ہوئے پر پرزے نہیں ہونے چاہیئں جس سے کسی کے زخمی ہونے کا امکان ہو۔
بعض صورتوں میں یہ ڈیلیوری ڈرونز چلتی ہوئی گاڑیوں کی سطح سے اوپر کی حد تک چلانے کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن اس کا انحصار خطرے کے لیول پر ہے۔
یہ نئے قوانین آئندہ ماہ فیڈرل رجسٹر میں شائع ہونے کے 60 دن بعد مؤثر ہو جائیں گے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ان نئے قوائد کے باوجود ڈرونز کے وسیع تر استعمال میں کچھ سال لگ سکتے ہیں۔