روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں جاری دنیا کے اقتصادی طور پر مضبوط 20 بڑے ممالک کے دو روزہ سربراہی اجلاس کےدوران مختلف ملکوں کے سربراہان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں امریکی صدر شام پر حملے کے لیے عالمی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔
تاہم ان ملاقاتوں اور مشاورتوں کے باوجود امریکہ شام پر حملے کے لیے روس کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔
سربراہ اجلاس کے موقعے پر صدر اوباما کا کہنا تھا کہ، ’میرا مقصد کیمیائی ہتھیار پر پابندی کے عالمی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانا ہے۔ میں اسے عملی طور پر نافذ کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا یہ سمجھ لے کہ معصوم لوگوں اور بچوں پر کیمیائی حملے کرنا قابل ِ قبول نہیں۔‘
یوں تو شام کا مسئلہ G20 سمٹ یعنی دنیا کے بیس طاقتور معاشی ممالک کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود موضوع ِ گفتگو رہا۔
21 اگست 2013ء میں دمشق میں مبینہ طور پر ہونے والے کیمیائی حملے نے ایک بار پھر عالمی دنیا کی توجہ شام کی جانب مبذول کرائی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت نے اپنی ہی لوگوں پر کیمیائی حملہ کرکے ’سرخ لکیر‘ عبور کر لی ہے۔ دمشق میں ہونے والی اس کیمیائی حملے میں 1400 سے زائد افراد کے ہلاک ہوئے تھے۔
شام کے صدر بشارالاسد نے اپنی حکومت کی جانب سے اپنے ہی لوگوں پر کیمیائی حملے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے باغیوں کی جانب سے کیے گئے۔
اس سے قبل 31 اگست 2013ء کو اپنے ایک خطاب میں امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس اس بات کا فیصلہ کرے کہ آیا امریکہ کو شام میں، شامی حکومت کے مبینہ کیمیاوی حملے کے رد ِ عمل کے طور پر فوجی اقدام کرنا چاہیئے یا نہیں۔
صدر اوباما نے اپنے خطاب میں یہ بھی واضح کیا کہ شام پر کی جانے والی ممکنہ فوجی کارروائی ’محدود حملہ‘ ہو گی جس میں امریکہ اپنی فوجیں شام میں اتارنے کی بجائے، شام میں اپنے اہداف پر فضائی کارروائی کرے گا۔
صدر اوباما کے الفاظ، ’یہ محدود جنگ ہوگی جس میں ہم اپنے فوجی شام میں نہیں اتاریں گے۔ یہ عراق نہیں ہے اور افغانستان بھی نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر نثار چوہدری ایک تجزیہ کار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اپنا موقف اچھی طریقے سے عالمی برادری کے سامنے پیش نہیں کر سکے۔ ڈاکٹر نثار چوہدری کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کو ڈر ہے کہ اگر وہ اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں گیا تو اُسے شام پر فوجی کارروائی کے لیے منظوری ملنا مشکل ہو جائے گا۔
ڈاکٹر نثار چوہدری کے الفاظ، ’امریکہ سپر پاور ہے۔ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے، اور ملٹری مشین ہے۔ یہ جہاں بھی ایکشن لینا چاہتے ہیں، جہاں بھی جانا چاہتے ہیں وہاں پر کوئی بھی انہیں روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔ اور آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ دنیا بھر میں کوئی اور ملک ایسا ہو جو کہیں اور پر اپنی فوجی بھیجے سوائے امریکہ کے۔ لیکن دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک یہی کہتے ہیں کہ سیکورٹی کونسل میں جانا چاہیئے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ سیکورٹی کونسل میں اس ملٹری ایکشن کی منظوری ملنا مشکل ہے۔‘
مگر دوسری جانب امریکہ میں بہت سے دفاعی تجزیہ کار اس رائے سے متفق نہیں دکھائی دیتے۔ الزبتھ او بیگے کا تعلق انسٹی ٹیوٹ فار دا سٹڈی آف وار سے ہے اور وہ کہتی ہیں کہ اگر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کو کچھ نہ کہا گیا تو یہ انہیں کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہوگا۔
الزبتھ او بیگے کے الفاظ، ’اگر شام کی جانب سے کیمیاوی حملوں کا کوئی موزوں جواب نہ دیا گیا تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ صدر بشار الاسد کیمیاوی حملوں کا استعمال جاری رکھیں گے۔‘
مگر ایک ایسے وقت میں جب حال ہی میں روس میں ہونے والے G20 اجلاس کے موقعے پر بھی صدر اوباما شام پر ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کے حوالے سے رائے ہموار کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دئیے، صدر اوباما کے دلائل بظاہر امریکی عوام پر کوئی خاص اثر ڈالتے نہیں دکھائی دے رہے۔ امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور نشریاتی ادارے ’این بی سی نیوز‘ کی جانب سے کیے جانے والے عوامی رائے عامہ کے ایک مشترکہ جائزے کے نتائج کے مطابق 59٪ امریکی، شام پر ممکنہ امریکی میزائل حملوں کے مخالف ہیں۔
ڈاکٹر نثار چوہدری کہتے ہیں کہ ابھی بھی وقت ہاتھ میں ہے اور شام کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا جا سکتا ہے۔ ان کے الفاظ، ’ میں یہ کہوں گا کہ اگر امریکہ نے یہ معاملہ حل کرنا ہے اور وہ اسے حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور اگر یہ شام میں امن چاہتے ہیں تو پھر چین اور امریکہ کو بشار الاسد کے پاس جانا چاہیئے اور اسے کہنا چاہیئے کہ آئیے مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں۔ اور جو قومیں شام میں ملٹری ایکشن چاہتی ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ باغیوں کے پاس جائیں جیسا کہ سعودی عرب اور ترکی وغیرہ۔ انہیں باغیوں کے پاس جانا چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ ہم آپ کی قوم اور اس خطے کا امن نہیں برباد کرنا چاہیتے۔ اس خطے میں پہلے ہی شیعہ اور سنی کے بہت سے گروہ موجود ہیں لیکن آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دینے کے لیے کیوں نہ ہم اکٹھے مل بیٹھیں بجائے اس کے کہ ان پر مہلک ہتھیار استعمال کیے جائیں جو صرف انسانوں کو مٹانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔‘
دوسری جانب روس اور دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان نے باور کرایا ہے کہ شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کے جواب میں اس کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی حالات کو اس نہج تک دھکیل سکتی ہے جہاں سے ’’واپسی ناممکن‘‘ ہو۔
زاہد بخاری، واشنگٹن کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں امریکن مسلم اسٹڈیز پروگرام کے سربراہ ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر شام پر حملہ ہوا تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔
زاہد بخاری کے مطابق، ’ پاکستان جس خطے میں ہے وہاں سے بھی اسے مختلف آوازیں آ رہی ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کی طرف سے الگ آواز آ رہی ہے جبکہ چین، روس اور ایران کی طرف سے ایک الگ پیغام آ رہا ہے۔ اور پاکستان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ عراق اور افغانستان میں جو معاملے شدت اختیار کر گئے تو اس کا اثر پاکستان پر پڑا۔ اب شام میں جب محاذ گرم ہوگا تو لامحالہ پھر اس کا اثر پاکستان پہ پڑے گا۔‘
مارچ 2011ء میں شام کے دارالحکومت دمشق اور دوسرے شہروں میں مشرق ِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کی طرح ’عرب بہار‘ تحریک کی طرز کے مظاہرے کیے گئے اور شامی عوام نے صدر بشار الاسد سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ وہ شام میں 1971ء سے اسد خاندان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔
اپریل 2011ء میں شامی حکومت کے فوجی ٹینک ڈیرہ، بنیاس اور دمشق کے مضافاتی علاقوں میں داخل ہو گئے جس کا مقصد شامی حکومت مخالف عناصر کو کچلنا تھا۔ اور یہی اس خانہ جنگی کا نقطہ ِ آغاز تھا جس نے گذشتہ ڈھائی برس سے شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام پر امریکہ کی ممکنہ محدود فوجی کارروائی کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کے بارے میں ابھی کچھ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے۔
زاہد بخاری کے الفاظ، ’جہاں تک اس کا سکوپ ہے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ سکوپ اس کا امریکہ محدود رکھنا چاہے گا شروع میں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جنگ ایک ایسا عمل ہے جو آپ شروع تو کر سکتے ہیں لیکن اس کا اختتام کرنا اور اس کے غیر ارادی نتائج کو سمیٹنا وہ بعض اوقات اس ملک کے بھی قابو میں نہیں رہتا جو اسے شروع کرتا ہے۔ تو اس لحاظ سے شاید ابھی ٹارگٹ تو بہت محدود ہو لیکن یہ آگے بڑھ بھی سکتا ہے۔‘
اس حوالے سے مزید تفصیلات کے لیے نیچے دئیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔
تاہم ان ملاقاتوں اور مشاورتوں کے باوجود امریکہ شام پر حملے کے لیے روس کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔
سربراہ اجلاس کے موقعے پر صدر اوباما کا کہنا تھا کہ، ’میرا مقصد کیمیائی ہتھیار پر پابندی کے عالمی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانا ہے۔ میں اسے عملی طور پر نافذ کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا یہ سمجھ لے کہ معصوم لوگوں اور بچوں پر کیمیائی حملے کرنا قابل ِ قبول نہیں۔‘
یوں تو شام کا مسئلہ G20 سمٹ یعنی دنیا کے بیس طاقتور معاشی ممالک کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود موضوع ِ گفتگو رہا۔
21 اگست 2013ء میں دمشق میں مبینہ طور پر ہونے والے کیمیائی حملے نے ایک بار پھر عالمی دنیا کی توجہ شام کی جانب مبذول کرائی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت نے اپنی ہی لوگوں پر کیمیائی حملہ کرکے ’سرخ لکیر‘ عبور کر لی ہے۔ دمشق میں ہونے والی اس کیمیائی حملے میں 1400 سے زائد افراد کے ہلاک ہوئے تھے۔
شام کے صدر بشارالاسد نے اپنی حکومت کی جانب سے اپنے ہی لوگوں پر کیمیائی حملے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے باغیوں کی جانب سے کیے گئے۔
اس سے قبل 31 اگست 2013ء کو اپنے ایک خطاب میں امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس اس بات کا فیصلہ کرے کہ آیا امریکہ کو شام میں، شامی حکومت کے مبینہ کیمیاوی حملے کے رد ِ عمل کے طور پر فوجی اقدام کرنا چاہیئے یا نہیں۔
صدر اوباما نے اپنے خطاب میں یہ بھی واضح کیا کہ شام پر کی جانے والی ممکنہ فوجی کارروائی ’محدود حملہ‘ ہو گی جس میں امریکہ اپنی فوجیں شام میں اتارنے کی بجائے، شام میں اپنے اہداف پر فضائی کارروائی کرے گا۔
صدر اوباما کے الفاظ، ’یہ محدود جنگ ہوگی جس میں ہم اپنے فوجی شام میں نہیں اتاریں گے۔ یہ عراق نہیں ہے اور افغانستان بھی نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر نثار چوہدری ایک تجزیہ کار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اپنا موقف اچھی طریقے سے عالمی برادری کے سامنے پیش نہیں کر سکے۔ ڈاکٹر نثار چوہدری کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کو ڈر ہے کہ اگر وہ اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں گیا تو اُسے شام پر فوجی کارروائی کے لیے منظوری ملنا مشکل ہو جائے گا۔
ڈاکٹر نثار چوہدری کے الفاظ، ’امریکہ سپر پاور ہے۔ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے، اور ملٹری مشین ہے۔ یہ جہاں بھی ایکشن لینا چاہتے ہیں، جہاں بھی جانا چاہتے ہیں وہاں پر کوئی بھی انہیں روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔ اور آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ دنیا بھر میں کوئی اور ملک ایسا ہو جو کہیں اور پر اپنی فوجی بھیجے سوائے امریکہ کے۔ لیکن دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک یہی کہتے ہیں کہ سیکورٹی کونسل میں جانا چاہیئے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ سیکورٹی کونسل میں اس ملٹری ایکشن کی منظوری ملنا مشکل ہے۔‘
مگر دوسری جانب امریکہ میں بہت سے دفاعی تجزیہ کار اس رائے سے متفق نہیں دکھائی دیتے۔ الزبتھ او بیگے کا تعلق انسٹی ٹیوٹ فار دا سٹڈی آف وار سے ہے اور وہ کہتی ہیں کہ اگر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کو کچھ نہ کہا گیا تو یہ انہیں کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہوگا۔
الزبتھ او بیگے کے الفاظ، ’اگر شام کی جانب سے کیمیاوی حملوں کا کوئی موزوں جواب نہ دیا گیا تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ صدر بشار الاسد کیمیاوی حملوں کا استعمال جاری رکھیں گے۔‘
مگر ایک ایسے وقت میں جب حال ہی میں روس میں ہونے والے G20 اجلاس کے موقعے پر بھی صدر اوباما شام پر ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کے حوالے سے رائے ہموار کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دئیے، صدر اوباما کے دلائل بظاہر امریکی عوام پر کوئی خاص اثر ڈالتے نہیں دکھائی دے رہے۔ امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور نشریاتی ادارے ’این بی سی نیوز‘ کی جانب سے کیے جانے والے عوامی رائے عامہ کے ایک مشترکہ جائزے کے نتائج کے مطابق 59٪ امریکی، شام پر ممکنہ امریکی میزائل حملوں کے مخالف ہیں۔
ڈاکٹر نثار چوہدری کہتے ہیں کہ ابھی بھی وقت ہاتھ میں ہے اور شام کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا جا سکتا ہے۔ ان کے الفاظ، ’ میں یہ کہوں گا کہ اگر امریکہ نے یہ معاملہ حل کرنا ہے اور وہ اسے حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور اگر یہ شام میں امن چاہتے ہیں تو پھر چین اور امریکہ کو بشار الاسد کے پاس جانا چاہیئے اور اسے کہنا چاہیئے کہ آئیے مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں۔ اور جو قومیں شام میں ملٹری ایکشن چاہتی ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ باغیوں کے پاس جائیں جیسا کہ سعودی عرب اور ترکی وغیرہ۔ انہیں باغیوں کے پاس جانا چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ ہم آپ کی قوم اور اس خطے کا امن نہیں برباد کرنا چاہیتے۔ اس خطے میں پہلے ہی شیعہ اور سنی کے بہت سے گروہ موجود ہیں لیکن آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دینے کے لیے کیوں نہ ہم اکٹھے مل بیٹھیں بجائے اس کے کہ ان پر مہلک ہتھیار استعمال کیے جائیں جو صرف انسانوں کو مٹانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔‘
دوسری جانب روس اور دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان نے باور کرایا ہے کہ شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کے جواب میں اس کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی حالات کو اس نہج تک دھکیل سکتی ہے جہاں سے ’’واپسی ناممکن‘‘ ہو۔
زاہد بخاری، واشنگٹن کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں امریکن مسلم اسٹڈیز پروگرام کے سربراہ ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر شام پر حملہ ہوا تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔
زاہد بخاری کے مطابق، ’ پاکستان جس خطے میں ہے وہاں سے بھی اسے مختلف آوازیں آ رہی ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کی طرف سے الگ آواز آ رہی ہے جبکہ چین، روس اور ایران کی طرف سے ایک الگ پیغام آ رہا ہے۔ اور پاکستان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ عراق اور افغانستان میں جو معاملے شدت اختیار کر گئے تو اس کا اثر پاکستان پر پڑا۔ اب شام میں جب محاذ گرم ہوگا تو لامحالہ پھر اس کا اثر پاکستان پہ پڑے گا۔‘
مارچ 2011ء میں شام کے دارالحکومت دمشق اور دوسرے شہروں میں مشرق ِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کی طرح ’عرب بہار‘ تحریک کی طرز کے مظاہرے کیے گئے اور شامی عوام نے صدر بشار الاسد سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ وہ شام میں 1971ء سے اسد خاندان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔
اپریل 2011ء میں شامی حکومت کے فوجی ٹینک ڈیرہ، بنیاس اور دمشق کے مضافاتی علاقوں میں داخل ہو گئے جس کا مقصد شامی حکومت مخالف عناصر کو کچلنا تھا۔ اور یہی اس خانہ جنگی کا نقطہ ِ آغاز تھا جس نے گذشتہ ڈھائی برس سے شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام پر امریکہ کی ممکنہ محدود فوجی کارروائی کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کے بارے میں ابھی کچھ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے۔
زاہد بخاری کے الفاظ، ’جہاں تک اس کا سکوپ ہے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ سکوپ اس کا امریکہ محدود رکھنا چاہے گا شروع میں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جنگ ایک ایسا عمل ہے جو آپ شروع تو کر سکتے ہیں لیکن اس کا اختتام کرنا اور اس کے غیر ارادی نتائج کو سمیٹنا وہ بعض اوقات اس ملک کے بھی قابو میں نہیں رہتا جو اسے شروع کرتا ہے۔ تو اس لحاظ سے شاید ابھی ٹارگٹ تو بہت محدود ہو لیکن یہ آگے بڑھ بھی سکتا ہے۔‘
اس حوالے سے مزید تفصیلات کے لیے نیچے دئیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔