رسائی کے لنکس

امریکہ میں المناک واقعات پر ایک نظر


ایک طرف بوسٹن دہشت گردی کے اس تازہ ترین حملے کے اثرات سے نمٹ رہا ہے ، تو دوسری طرف ، 19 اپریل سے ماضی کے المیوں کی یاد تازہ ہو رہی ہے

بوسٹن میں دہشت گردی کے دو ملزموں میں سے ایک ہلاک ہو چکا ہے اور دوسرا پولیس کی تحویل میں ہے ۔ اپریل کے مہینے میں ہی امریکہ میں کچھ اور افسوسناک واقعات کی برسی منائی جاتی ہے۔ 19 اپریل ، 1993 کو ٹیکساس میں ‘برانچ ڈیواڈئین’ کا محاصرہ کیا گیا تھا اور اسی تاریخ کو 1995 میں اوکلا ہوما سٹی میں فیڈرل بلڈنگ پر دہشت گردی کا حملہ ہو ا تھا۔

یہ دونوں المناک واقعات 19 اپریل کو ہوئے اور ان کی افسوسناک یادیں امریکیوں کی اجتماعی حافظے میں محفوظ ہو گئی ہیں۔

ٹیکسس میں 1993 میں ‘برانچ ڈیواڈئن’ کے کمپاؤنڈ کے محاصرے اور اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ایک انتہا پسند مذہبی فرقے کے 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔
اس کے دو سال بعد ایک تباہ کن ٹرک بم اوکلاہوما سٹی میں ایک وفاقی عمارت سے جا ٹکرایا ۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں 168 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

سابق سپاہی ٹیمٹھی کو اس حملے کا مجرم قرار دیا گیا اور اسے 2001 میں سزائے موت دی گئی۔

سدرن پاورٹی لا سینٹر کے مارک پوٹوکو کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے 19 اپریل کے دن کو خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ وہ امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروپوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔

انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ‘‘امریکہ میں دائیں بازو کے لیے 19 اپریل کا دن ایک طرح سے علامتی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ یہی وہ دن ہے جب 1775 میں امریکی انقلاب کے لیے پہلی بار گولیاں چلائی گئی تھیں۔’’

اپریل کے وسط میں ہونے والا ایک اور المیہ وہ تھا جب ریاست کولوریڈو کے ہائی اسکول میں گولیاں چلائی گئیں۔

یہ برسیاں اکثر امریکیوں کو اداس کر دیتی ہیں لیکن یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے تشویش کا باعث بھی ہیں۔

سابق وفاقی پراسیکویٹر ایٹان گویلمان اس ٹیم میں شامل تھے جس نے اوکلاہوما سٹی کیس کے ملزموں پر مقدمہ چلایا ۔ انہیں یاد ہے کہ بم کے اس حملے کا امریکیوں پر کیا اثر ہوا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘‘عام لوگوں پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا تھا۔ یہ حقیقت کہ یہ واقعہ اوکلا ہوما سٹی میں امریکہ کے عین وسط میں پیش آیا اور ملزم کوئی مسلمان جنونی نہیں تھا بلکہ امریکہ میں پلنے بڑھنے والا امریکی دہشت گرد تھا ۔ عام لوگوں کے لیے یہ بڑی حیرت ناک بات تھی۔’’

مارک پوٹوک کہتے ہیں کہ یہ گروپ 1990 کی دہائی کے آخری برسوں میں پس منظر میں چلے گئے تھے لیکن یہ اب پھر سر اٹھا رہے ہیں۔

‘‘2009 میں ، براک اوباما کے انتخا ب کے فوراً بعد ہم نے دیکھا کہ ان گروپوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ۔ 2008 میں ہماری گنتی کے مطابق ایسے گروپوں کی تعداد 149 تھی۔ گزشتہ سال یعنی 2012 کے آخر تک، ان کی تعداد 1,360 تک پہنچ گئی تھی۔’’

لہٰذا ایک طرف بوسٹن دہشت گردی کے اس تازہ ترین حملے کے اثرات سے نمٹ رہا ہے ، تو دوسری طرف ، 19 اپریل سے ماضی کے المیوں کی یاد تازہ ہو رہی ہے اور مستقبل کے غیر ملکی اور داخلی دونوں قسم کے خطرات سے نمٹنے کی تیاریوں کی ضرورت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔
XS
SM
MD
LG