دہشت گرد گروپ داعش کا یہ اعلان کہ اس نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اپنے دوسرے رہنما کو کھو دیا ہے، امریکہ کے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں تھی، جہاں حکام کا کہنا ہےکہ انہیں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے اس کی موت کا علم تھا۔
اسلامی اسٹیٹ نے، جسے داعش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بدھ کو ایک مختصر آڈیو بیان میں ابو الحسن الہاشمی القریشی کی موت کا اعلان کیا تھا۔
امریکی سینٹرل کمان نے بعد میں اپنا بیان جاری کیا، جس میں تصدیق کی گئی کہ ابو الحسن اکتوبر کے وسط میں شام کے جنوبی صوبے درعا میں فری سیرین آرمی (ایف ایس اے) کے ہاتھوں ماراگیا۔ یہ ایک ایسا باغی گروپ ہے جو امریکہ کا شراکت دار نہیں ہے۔
لندن میں قائم ایک مانیٹرنگ گروپ "سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس"نے، جو آئی ایس رہنما کی ہلاکت کا باعث بننے والے ایف ایس اے کے چھاپوں کی ایک سیریز کے بارے میں رپورٹ کرنے والے اولین لوگوں میں شامل تھا، بدھ کے روز بتایا کہ ان کا اصل نام عبدالرحمٰن العراقی تھا۔
بہر حال امریکی عہدہ داروں نے داعش کے رہنما کی موت کے اعلان کا خیرمقدم کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین جین پیئر نے گزشتہ فروری میں اس گروپ کے سابق سربراہ کی موت کو نوٹ کرتے ہوئے کہا تھا، "ہمیں داعش کے سرکردہ رہنماؤں کو اتنی تیزی سے ختم ہوتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "ہم انسداد دہشت گردی کی ان کامیابیوں کو آگے بڑھائیں گے۔ہم اس دباؤ کو یقینی طور پر برقرار رکھیں گے۔"
دہشت گرد گروپ کی قیادت کے لئے پہلے سے جاری نقصانات کے سلسلے میں ان کے ایک اور سربراہ کی ہلاکت تازہ ترین واقعہ ہے۔ فروری میں ابو الحسن کے پیشرو کی موت اور مئی میں السمیداعی کی گرفتاری کے علاوہ،داعش نے گزشتہ آٹھ مہینوں میں کم از کم پانچ دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو کھو دیا ہے۔
ہانی احمد الکردی جو کہ گروپ کی شامی کارروائیوں کا ایک اہم رہنما ہے، جون میں امریکی ہیلی کاپٹر کے ایک حملے میں پکڑا گیا تھا۔
اس کے بعد اکتوبر میں، شمال مشرقی شام کے گاؤں قمشلی میں ایک امریکی چھاپے میں رکان واحد الشمری کو ہلاک کر دیا گیا، جو طویل عرصے سے آئی ایس کا کارندہ اور اسمگلر تھا۔
" سوشل میڈیا پر جہادی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی کمپنی JihadoScope کے مطابق، آئی ایس کے کچھ پیروکاروں نے پہلے ہی نئے رہنما کے لیےبیعت کرنا شروع کر دی ہے۔