چند ہی برسوں میں چین جو بھاری مقدار میں امداد لینے والا ملک تھا، ترقیاتی قرضے اور عطیات دینے والا ایک بہت بڑا ملک بن گیا ہے ۔ اخبار فنائنشل ٹائمز کے اعداد و شمار کے مطابق،چائنا ڈویلوپمنٹ بنک اور چائنا ایکسپورٹ امپورٹ بنک نے 2009 اور 2010 میں ترقی پذیر ملکوں کی حکومتوں اور کمپنیوں کو 110 ارب ڈالر کے قرضے دیے۔ تقریباً اسی مدت میں عالمی بنک کے مختلف اداروں نے دنیا کے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیئے ، 100 ارب ڈالر کی رقم دی۔ گویا چین نے عالمی بنک سے زیادہ بڑ ی رقم دی۔ چین کے سمجھوتوں میں برازیل، روس ، اور وینیزویلا کے ساتھ تیل کے عوض قرضے نیز ارجنٹائن، Belarus، گھانا، اور موزمبیق کے ساتھ بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے لیئے قرضے شامل تھے۔
چین کے لیئے عالمی بنک کے سابق ڈائریکٹر یوکون ہوانگ کہتے ہیں۔’’بعض قرضوں سے چین کو قدرتی وسائل اور معدنیات ، تیل اور توانائی کے ذرائع تک اور بعض کیسوں میں زرعی زمین اور پیداوار کے امکانات تک رسائی میں مدد ملتی ہے۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کی چین کو شدید ضرورت ہے کیوں کہ چین ایسا ملک ہے جس میں وسائل کی کمی ہے ۔‘‘
ہوانگ آج کل واشنگٹن میں کارنیج انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین اپنے بے اندازہ مالی اثاثوں کو اپنے مفادات کو وسعت دینے کے لیئے ، جیسے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے ، اپنی کرنسی کو فروغ دینے اور اسے بین الاقوامی درجہ دینے کے لیئے استعمال کر رہا ہے کیوں کہ بعض قرضے چینی کرنسی یوان میں دیے جاتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ جاپانی قرضے جاپان کے مقاصد کے فروغ کے لیئے ہوتے ہیں اور امریکی قرضے، امریکی مقاصد کے لیئے ۔ چین کے قرضے چینی مقاصد کو فروغ دیتے ہیں۔
میزوہا سکیورٹیز ایشیا کے چیف اکانومسٹ شین ژیانگ گوانگ کہتے ہیں کہ چین کی اقتصادی طاقت میں بہت اضافہ ہوا ہے، اور چین اب ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جس میں وہ بہ آسانی بیرون ملک اپنی موجودگی میں اضافہ کر سکتا ہے ۔ ’’میرے خیال میں چین آج کل جو کچھ کر رہا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جو دوسرے ترقی یافتہ ملک ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کو جو ترقیاتی امداد دی جاتی ہے اس کے ذریعے اپنا اثرو رسوخ بھی بڑھایا جاتا ہے ۔ چینی بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو عام طور سے کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
اخبار فنائنشل ٹائمز نے کہا ہے کہ یہ دو چینی بنک جن شرائط پر قرض دیتے ہیں، وہ عالمی بنک کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہیں۔ چینی قرضوں کے ساتھ ہر چیز کو کھلا اور شفاف رکھنے کی شرائط بھی کم ہوتی ہیں۔ ایک حالیہ بریفنگ میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی سے پوچھا گیا کہ کیا چین عالمی بنک سے مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ انھوں نے اس سوال کا براہ راست جواب تو نہیں دیا لیکن یہ کہا کہ چین بدستوردوسرے ملکوں کو ترقیاتی امداد دیتا رہے گا۔ انھوں نے کہا’’چین اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ، دوسرے ملکوں کو ترقیاتی امداد دیتا رہے گا۔عالمی امن کے لیئے چین کی حمایت کا یہ ایک ٹھوس ثبوت ہے ۔‘‘
تا ہم چین کی امدادی کوششوں پر دنیا کی بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ترقیاتی ایجنسیوں نے تنقید کی ہے۔ انسانی حقوق کے بعض کارکن کہتے ہیں کہ چینی امداد اور تجارتی سودے، خاص طور سے افریقہ میں، بد عنوان حکومتوں کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں، اور اس امداد کے بہت کم فوائد عام لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ بعض ترقیاتی ماہرین نے کہا ہے کہ چینی قرضے اورعطیات پر نظر نہیں رکھی جاتی تا کہ کرپشن سے بچا جا سکے اور ان سے غربت ختم کرنے میں بہت کم مدد ملتی ہے ۔
عالمی بنک نے اس رپورٹ کے لیئے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا لیکن ایک تحریری بیان بھیجا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کر رہا ہے جس کے ساتھ اس کی شراکت داری بہت اہم ہے اور روز بروز ترقی کر رہی ہے ۔