ایسے وقت میں جبکہ امریکہ اور چین کے فوجی رابطوں میں جمود برقرار ہے بیجنگ نے امریکی سب میرین طیارے کی آبنائے تائیوان پر پرواز کے خلاف احتجاج کے ایک روز بعد واشنگٹن پر بیرونی خلا میں عسکریت پسندی کا الزام لگا یا ہے۔
اس سے قبل امریکی ساتویں بحری بیڑے نے تصدیق کی تھی کہ بحریہ کا پوسیڈن P-8A جمعرات کو آبنائے تائیوان کو بین الاقوامی فضائی حدود میں سے گزرا ۔
جمعے کو چینی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ٹین کیفی نے کہا کہ 2019 میں فوج کی نئی شاخ کے طور پر خلائی فورس کے قیام سمیت امریکی اقدامات نے "خلائی سلامتی اور عالمی اسٹریٹیجک استحکام پر بہت منفی اثر ڈالا ہے۔"
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق چینی ترجمان نے کہا،حالیہ برسوں میں، امریکہ نے خلا کی عسکریت پسندی کو تیز کیا ہے۔
"میں یہاں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ چین خلا کے پرامن استعمال کا پابند ہے، ہتھیار بنانے اور خلا کو میدان جنگ بنانے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، اور خلا میں کسی بھی قسم کی ہتھیاروں کی دوڑ کی مخالفت کرتا ہے۔"
چینی وزارت نے کہا کہ" ٹان ،اسپیس فورس" کے رہنماؤں کی طرف سے چین کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں ظاہر کیے گئے حالیہ خدشات کا جواب دے رہے ہیں اور اسے "کلاسیکی علمی اختلاف" کہتے ہیں۔
جہاں تک چین کی خلا میں پیش ر فت کا معاملہ ہے توبیجنگ نےزمین کے مدار میں چکر لگانے والا اپنا ایک خلائی اسٹیشن بھیجا ہے اور اس کے عملے پر مشتمل قمری مشن کے منصوبے بھی اس میں شامل ہیں۔
سال 2007 میں چین نے اپنے ایک ناکارہ موسمی سیارے کو تباہ کرنے کے لیے میزائل کا استعمال کیا تھا جس کے باعث اس کو بین الاقوامی مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعہ سے خلا میں بہت سا ملبہ رہ گیا جو مدار میں موجود دیگر اشیاء کے لیے بدستور خطرہ بنا ہوا ہے۔
خیال رہے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کے دوران واشنگٹن نے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور وزیر خزانہ جینٹ ییلن کو بیجنگ کے دوروں پر بھیجا لیکن تعلقات اس وقت تاریخی طور پر خراب ہیں۔
چین نے دونوں ملکوں میں فوجی روابط کو بحال کرنے سے انکار کیا ہے۔ اے پی کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ نے ایسا غالباً امریکہ کی جانب سے تائیوان کو اسلحے کی فروخت اور چین کے وزیر دفاع لی شنگ فو کے خلاف امریکی پابندیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا ہے۔
اگرچہ آبنائے تائیوان کو بین الاقوامی پانیوں اور فضائی حدود کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک اہم راستے کے طور پر کام کرتی ہے، لیکن چین اس پر اپنی ملکیت ہونے کا دعویٰ کرتا رہتا ہے۔ آبنائے تائیوان سرزمین چین اور تائیوان کے خود مختار جمہوریت پسند جزیرے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔
چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے جبکہ امریکہ اس جزیرے کو اپنا اتحادی سمجھتا ہے۔ بیجنگ سمجھتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ تائیوان کو طاقت کے ذریعے اپنے ملک میں ضم کر سکتا ہے۔
چین تائیوانی فوج کو ہراساں کرنے کے لیے باقاعدگی سے طیارے اور جنگی جہاز بھیجتا ہے اور اس کے 23 ملین شہریوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔
جمعرات کو، چین کی "پیپلز لبریشن آرمی" کی مشرقی تھیٹر کی کمانڈ نے، جس کی کارروائیوں کی حدود میں تائیوان کا علاقہ شامل ہے، کہا کہ وہ امریکی طیارے کا تعاقب اور اس کی نگرانی کرنے کے لیے اپنے جنگی طیاروں کو حرکت میں لایا تھا۔ فوج کے مطابق وہ اس معاملے سے قوانین اور ضوابط کے مطابق نمٹی۔"
ترجمان کرنل شی یی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کہا گیا، کہ"تھیٹر کے دستے ہر وقت اعلیٰ سطح پر چوکس رہتے ہیں اور علاقائی امن و استحکام کے ساتھ ساتھ قومی خودمختاری اور سلامتی کا بھرپور دفاع کریں گے۔"
ادھر امریکی ساتویں بیڑے نے بحریہ کے جہاز کی علاقے پر پرواز کا دفاع کیا ہے۔
اپنی ویب سائٹ پر بحری بیڑے نے کہا، "بین الاقوامی قانون کے مطابق آبنائے تائیوان کے اندر کام کرتے ہوئے، امریکہ تمام اقوام کے بحری حقوق اور آزادیوں کو برقرار رکھتا ہے۔"
امریکی بحری بیڑے نے کہا: "تائیوان کی آبنائے سے ہوائی جہاز کی آمدورفت ایک آزاد اور کھلے ہند-بحرالکاہل کے لیے امریکہ کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ امریکہ کی فوج جہاں بھی بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے وہاں جاتی ہے، جہاز چلاتی ہے اور کام کرتی ہے۔"
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)