پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ نے امریکی خاتون شہری سنتھیا ڈی رچی کو کلین چٹ دے دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ امریکی بلاگر کسی قسم کی غیر قانونی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے جمعے کو امریکی خاتون شہری اور بلاگر سنتھیا ڈی رچی کو ملک بدر کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے وزارتِ داخلہ کا تحریری جواب پیش کیا اور ساتھ ہی پڑھ کر بھی سنایا۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ امریکی صحافی سنتھیا ڈی رچی قانون کے مطابق 31 اگست تک پاکستان میں رہ سکتی ہیں جب کہ وزارتِ داخلہ کے پاس کوئی ایسا مواد نہیں کہ سنتھیا کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق کرونا وائرس کے پیش نظر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کے ویزوں میں 31 اگست تک توسیع کی گئی ہے جب کہ سنتھیا ڈی رچی نے اپنے ویزے میں توسیع کی درخواست بھی دے رکھی ہے جس پر 31 اگست کے بعد قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارتِ داخلہ کے اس جواب کی کاپی فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے میڈیا سے گفتگو میں وزارتِ داخلہ کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ اس رپورٹ کو چیلنج کیا جائے گا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ رپورٹ میں عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیکریٹری داخلہ قانون کے مطابق کارروائی نہیں کر رہے۔ انہیں پابند کیا جائے کہ وہ قانون کے مطابق کاروائی کریں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ رپورٹ میں ہماری رِٹ کو خارج کرنے اور غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمیں حکومت پر پہلے ہی یقین نہیں تھا، اسی لیے عدالت کا رخ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ثابت کریں گے کہ سنتھیا رچی کا ویزا بھی غلط ہے اور وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔
لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ سنتھیا ڈی رچی غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہ رہی تھیں۔ دو مارچ کو سنتھیا کے ویزے کی مدت ختم ہو گئی تھی اور اس مدت میں آٹھ دن کی توسیع کی گئی تھی جب کہ ویزا میں توسیع کی درخواست سنتھیا نے دو جون کو دی تھی۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سنتھیا ڈی رچی نے بزنس ویزا پر ہونے کے باوجود دیگر سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ ان کے بقول، "وہ میران شاہ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ پی ٹی ایم کی چھان بین کر رہی ہوں۔ حساس اداروں کا نام لیتی ہیں کہ ان کے ساتھ جا رہی ہوں۔ کیا یہ بزنس ویزا کی شرائط کا حصہ ہے؟"
پیپلز پارٹی کے وکیل کے مطابق سنتھیا رچی کہتی ہیں کہ وہ دستاویزی فلمیں بنا رہی ہیں لیکن وہ بھی بزنس ویزا کا حصہ نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ کے بقول ایسا نہیں ہے کہ سنتھیا کوئی کمسن نادان لڑکی ہوں۔ انہیں ہر معاملے کی سمجھ بوجھ ہے۔ گزشتہ روز سنتھیا نے ایک بینک اکاؤنٹ کھولا ہے جس میں جھوٹ سے کام لیا گیا ہے۔
لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ سنتھیا امریکہ میں بھی بینک کرپٹ ہیں۔ یہ وہاں سے فرار ہیں اور خاص طور سے پیپلز پارٹی کو داغ دار کرنے میں کوشاں ہیں۔
سنتھیا رچی کون ہیں؟
حال ہی میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں رحمان ملک، مخدوم شہاب الدین اور یوسف رضا گیلانی پر جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات عائد کرنے والی سنتھیا رچی اس وقت پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کافی نمایاں نظر آتی ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ایک متنازع ٹوئٹ کی تھی جس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے سخت احتجاج اور ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ ان ٹوئٹس کے بعد پیپلز پارٹی نے سنتھیا رچی کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم میں درخواست بھی دائر کی تھی۔
سنتھیا امریکی ریاست لوئزیانا میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 2003 میں 'لوئزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی' سے 'کریمنل جسٹس' پر فوکس کے ساتھ بیچلر کی ڈگری حاصل کی جب کہ دو سال بعد اسی یونیورسٹی سے 'سائیکالوجی' میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
سنتھیا پاکستان کب اور کیسے آئیں؟
سنتھیا پہلی بار نومبر 2009 میں پاکستان آئی تھیں۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق ان کے پاس تین دن کا وزٹ ویزا تھا۔
ریکارڈ کے مطابق سنتھیا رچی گزشتہ 10 برسوں میں تقریباً 50 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔
سنتھیا رچی کے پاکستان پیپلز پارٹی پر الزامات
سنتھیا رچی نے گزشتہ ماہ سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک، یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔
سنتھیارچی کا کہنا تھا کہ رحمان ملک نے ایک دن انہیں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بلایا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ رحمان ملک ان الزامات کی مکمل طور پر تردید کر چکے ہیں۔
اس سے قبل سنتھیا رچی نے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے تھے۔
سنتھیا رچی کے الزامات سے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ شروع ہو گیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سنتھیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے ان کے خلاف ایف آئی اے اور پولیس کو درخواستیں بھی دی ہوئی ہیں جب کہ سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف ٹرینڈ بنائے گئے تھے۔