امریکی بلاگر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر سنتھیا ڈان رچی نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فوج کے لیے کبھی کام نہیں کیا ہے۔ جن سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ان کی ذات پر حملے کیے گئے وہ پیپلز پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ سے منسلک ہیں۔ پیپلز پارٹی پر الزامات سے متعلق ان کے پاس شواہد ہیں اور ان کے سفارت کار دوست وقت پڑنے پر گواہی بھی دیں گے۔
سنتھیا نے ان خیالات کا اظہار واشنگٹن ڈی سی میں وائس آف امریکہ کی رپورٹر ارم عباسی کو اسلام آباد سے ویڈیو لنک پر انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
سنتھیا نے رواں ماہ پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر سنگین الزامات عائد کیے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے 2011 میں اُن کا ریپ کیا تھا جب کہ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیرِ صحت مخدوم شہاب الدین نے اُنہیں ہراساں کیا تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالتوں سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔
امریکی بلاگر کے انٹرویو پر ردِ عمل جاننے کے لیے وائس آف امریکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے بھی رابطے کی کوشش کر رہا ہے اور جلد ان کے انٹرویوز بھی ہماری ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پیجز پر پیش کیے جائیں گے۔
گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کو دیے گئے اپنے انٹرویو کے دوران سنتھیا ڈان رچی کا کہنا تھا کہ وہ بہت عرصے کے بعد اپنی کہانی لوگوں کو بتانے کے لیے تیار ہوئی ہیں۔
اُن کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ چند ماہ پہلے اُنہیں امریکہ میں مقیم اپنے خاندان کے لیے دھمکیوں والے پیغامات موصول ہوئے جس کے بعد انہوں نے اپنی کہانی پاکستان کے عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی ایم سے منسلک اکاؤنٹس ان کے خاندان کی معلومات سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں اور اُنہیں نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اپنے الزامات سے متعلق شواہد سامنے لانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ عدالت میں اپنی پیشی کا انتظار کر رہی ہیں۔ اُن کے پاس اسکرین شاٹس اور فون کالز جیسے شواہد ہیں جن کا علم ان کے چند سفارت کار دوستوں کو بھی ہے۔
ریپ کے مبینہ واقعے کے بارے میں سنتھیا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو اس بارے میں بتانا نہیں چاہتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔
انہوں نے کہا کہ جب ملک ریاض کی بیٹیوں کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک عورت اپنے گارڈز کو دوسری عورت پر حملے کا حکم دے رہی تھی، تو اس سے اُنہیں پاکستان میں اپنے تلخ تجربات یاد آئے۔ پھر وہ کہانیاں یاد آئیں جو انہیں مبینہ طور پر رحمان ملک نے سنائی تھیں۔
سنتھیا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ریپ کلچر بہت زیادہ ہے لیکن ایک شخص یا چند افراد کی وجہ سے اسے عمومی رویہ سمجھنا غلط ہے۔ تاہم ان کے بقول تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایسا سب سے زیادہ اس جماعت میں ہے جو اپنے آپ کو لبرل اور ترقی پسند کہتی ہے۔
اُن کے بقول، "مجھے پاکستان میں بہت اچھے لوگ ملے جو واقعی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔ اس لیے مجھے لگا کہ امریکی ہونے کے ناتے میرا کام پاکستان کی بہتر وکالت کرنا ہے۔"
سنتھیا نے کہا کہ امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی بدترین واقعات رونما ہوتے دیکھے ہیں۔ لیکن ان کے بقول انہوں نے پاکستان میں خرابی سے زیادہ خوب صورتی دیکھی۔
نقیب اللہ محسود سے متعلق ٹوئٹ کیوں کی؟
ایک سوال پر سنتھیا کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ محسود کی ہلاکت سے متعلق ٹوئٹ کا مقصد یہ تھا کہ اس کی ہلاکت کسی اور وجہ سے ہوئی تھی اور پی ٹی ایم اسے کوئی اور رنگ دے رہی ہے۔
ان کے بقول اُن کی ٹوئٹ کا مقصد کسی کو بدنام کرنا نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس پر معافی بھی مانگی۔
ٹوئٹر پر اپنے ویزے کی درخواست وائرل ہونے سے متعلق سنتھیا کا کہنا تھا کہ اُن کا ویزا ہمیشہ سے اسپانسر رہا ہے اور انہوں نے جو بھی کام کیا ہے، اس کی مکمل دستاویزات ان کے پاس ہیں۔
سنتھا رچی ماضی میں کہتی رہی ہیں کہ انہوں نے پاکستانی فوج کے ساتھ کام کیا ہے۔
تاہم وائس آف امریکہ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ کام کرنے کا مقصد کسی کے لیے کام کرنا نہیں ہوتا۔ اُنہیں پاکستان کی فوج سے کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے سنتھیا رچی سے لا تعلقی کا اعلان کیا تھا۔
سنتھیا کے الزامات پر رحمان ملک کا مؤقف
پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما رحمان ملک اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے سنتھیا رچی کے انٹرویو کے بعد ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے وہ اس پر بات نہیں کر سکتے۔
اسلام آباد سیشن کورٹ نے رحمان ملک کی سنتھیا رچی کے خلاف 50 ارب روپے کے ہتکِ عزت کے دعوے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے اور سنتھیا رچی کو 13 جولائی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
رحمان ملک کے ترجمان ریاض علی طوری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رحمان ملک سنتھیا رچی کا بطور خاتون احترام کرتے ہیں اس لیے آج تک کسی میڈیا پر ان کے الزامات کا جواب نہیں دیا۔
ترجمان نے کہا کہ سنتھیا رچی نے الزامات اس لیے لگائے کیوں کہ رحمان ملک نے سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کے خلاف سنتھیا کے ٹوئٹس کا نوٹس لیا تھا۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ رحمان ملک کو دھمکیاں ملی تھیں کہ وہ سنتھیا رچی کے خلاف نوٹس کو واپس لیں ورنہ وہ ان پر بھی الزام لگائیں گی۔
رحمان ملک کا کہنا ہے کہ سنتھیا رچی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو سے متعلق کسی امریکی شہری سے نازیبا گفتگو نہیں کی۔
رحمان ملک کے وکلا نے ایک اور نوٹس میڈیا پر سنتھیا رچی کی جانب سے مسلسل الزامات کے ردِ عمل میں بھیجا ہے۔
پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے سنتھیا رچی کے خلاف ایف آئی اے میں بھی درخواست جمع کرائی ہے۔ عدالت کے احکامات پر ایف آئی اے ٹوئٹر پر سنتھیا رچی کے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف بیانات کی تحقیقات بھی کر رہی ہے۔