ایران میں مبینہ جاسوسی کے الزام میں قید ایک امریکی شہری نے صدر جو بائیڈن سے اپنی اور دو دیگر امریکی شہریوں کی رہائی کو یقینی بنانے کی درخواست کی ہے ۔
امریکہ نے امریکی شہریوں کے خلاف جاسوسی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
جمعرات کو تہران کی ایون جیل سے سی این این چینل کو ایک انٹرویو میں سیامک نمازی نے امریکی صدر سے جیل میں بند امریکی شہریوں کی زندگی اور آزادی کو سیاست سے بالاتر رکھتے ہوئے وہ تمام تر کوششیں کرنے کی اپیل کی جو امریکی قیدیوں کا بھیانک خواب ختم کرکے انہیں امریکہ واپس لا سکیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق 51سالہ نمازی اپنے دو ہم وطنوں 58 سالہ عماد اورامریکی اور برطانوی شہریت رکھنے والے 67 سالہ ماہر ماحولیات مراد تہباز کی طرف سے بات کررہے تھے۔
نمازی نے 16 جنوری کو بھی صدر بائیڈن کو لکھے ایک خط میں اسی طرح کی درخواست کی تھی۔
اس سے سات سال قبل ایران نے سن 2015 میں سابق صدر اوباما کے دور میں طے پانے والے جوہری معاہد ے کے تحت پانچ امریکیوں کو قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا تھا۔
نمازی نے یہ بھی کہا کہ صدر بائیڈن کا ان کے اہل خانہ سے نہ ملنا ’’تکلیف دہ اور پریشان کن‘‘ ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’ایران کی جانب سے امریکی شہریوں کو سیاسی فائدے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے غیر منصفانہ قید اور ان کا استحصال، اشتعال انگیز، غیر انسانی اور بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے‘‘۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ’’وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارتِ خارجہ کے سینیئر اہلکار نمازی خاندان سے باقاعدگی سے ملاقات اور مشاورت کرتے ہیں، اور ہم ایسا کرتے رہیں گے جب تک کہ یہ ناقابل قبول نظر بندی ختم نہیں ہو جاتی۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔)