امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے پاکستان میں احمدی کمیونٹی پر حملے اور افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پیر کو (یو ایس سی آئی آر ایف) کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں اس تشویش کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومتِ پاکستان نے اکتوبر کے اوائل میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کو رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کے لیے یکم نومبر کی مہلت دی تھی۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقومی مذہبی آزادی کے کمشنر ڈیوڈ کری نے کہا ہے کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستانی حکومت ان مذہبی اقلیتوں کو زبردستی افغانستان بھیج سکتی ہے جو طالبان دور میں تشدد سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کے دورِ حکومت میں مسیحی، شیعہ مسلمان، احمدی اور سکھ برادری کے افراد کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت اس تاثر کو رد کرتی رہی ہے۔
کمیشن نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر پاکستان سے بات چیت جاری رکھیں اور اسلام آباد سے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے اصرار کرے۔
دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مہاجرین کی بے دخلی کے دوران مبینہ طور پر نارووا سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ تارکینِ وطن کی ملک بدری کے دوران یقینی بنایا جائے کہ انہیں ہراساں نہ کیا جائے اور بچے اپنے والدین سے جدا نہ ہوں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقومی مذہبی آزادی کے بیان پر وائس آف امریکہ کی درخواست پر پاکستان کے دفترِ خارجہ کا تاحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن پاکستانی حکام قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ تارکینِ وطن کی ملک بدری کی پالیسی ملکی قانون کے عین مطابق ہے۔
یاد رہے کہ غیر ملکی تارکینِ وطن کی ملک بدری کے لیے یکم نومبر کی مہلت ختم ہونے کے بعد انہیں خصوصی طور پر قائم 'ہولڈنگ سینٹرز‘ میں رکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی تمام متعلقہ حکام کو یہ ہدایت کر چکے ہیں کہ خواتین، بچوں اور معمر افراد کے ساتھ نہایت احترم کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔
احمدی کمیونٹی سے متعلق خدشات
امریکی کمیشن نے پاکستان میں احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں کے مینار اور محرابوں کی توڑ پھوڑ کے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، تاہم پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
کمیشن کے مطابق اگست 2023 میں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے باجود کے 1984 سے قبل تعمیر ہونے والی احمدی عبادت گاہوں کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ ان تعمیرات کی توڑ پھوڑ اور ان عبادت گاہوں کے میناروں اور نقش و نگار مٹانے کے واقعات تسلسل کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے الزمات میں احمدی کمیونٹی کے اراکین کو حراست میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں صوبائی اور قومی انتخابات میں ووٹنگ کے مساوی حق میں سے محروم رکھا جا رہا ہے جب تک وہ اپنے عقیدے سے دست بردار نہیں ہو جاتے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمشنر سوسی جیلمین نے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا جائے اور تمام پاکستانی شہریوں کو اپنے عقیدے کی پیروی کرتے ہوئے ووٹ کے مساوی حق تک رسائی دی جائے۔
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ احمدی برادری کو آئین پاکستان کے تحت جو حقوق حاصل ہیں ان کے تحت انھیں ہر طرح کا تحفظ بھی ملنا چاہیے۔
اُن کے بقول احمدی کمیونٹی کو پاکستان کے آئین میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے وہ پاکستانی قانون کے مطابق مسلمانوں کی مساجد کی طرز پر اپنی عبادت گاہ نہیں بنا سکتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر اشرفی نے کہا کہ وہ احمدی برادری کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ اپنی عبادت گاہوں کا کوئی ایسا ڈیزائن ترتیب دیں جو مساجد سے مختلف ہو۔
فورم