ملائیشیا نے کہا ہے کہ وہ حماس سمیت فلسطینی عسکری گروہوں کے غیر ملکی حامیوں کے خلاف یک طرفہ امریکی پابندیاں تسلیم نہیں کرے گا۔
ملائیشیا کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم نے منگل کو پارلیمان سے خطاب میں کہا کہ وہ ان پابندیوں سے متعلق امریکہ کے مجوزہ بل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بل ملائیشیا کو صرف اس صورت میں متاثر کر سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ حماس یا اسلامک جہاد کو کسی قسم کی مدد فراہم کرتا ہے۔
امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے گزشتہ ہفتے 'حماس انٹرنیشنل فنانسنگ پروینشن ایکٹ' منظور کیا تھا جس کا مقصد امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی فلسطینی تنظیم 'حماس' کے لیے غیر ملکی فنڈنگ روکنا ہے۔
ایوانِ نمائندگان سے منظوری کے بعد اب یہ بل سینیٹ میں ووٹنگ کا منتظر ہے۔
ملائیشیاکے وزیرِ اعظم انور ابراہیم نے کہا ہے کہ اگر ان پابندیوں سے ملائیشیا متاثر ہوا تو اس کا لامحالہ اثر امریکی کمپنیوں کے ملائیشیا میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی پڑے گا۔
مسلم اکثریتی ملک ملائیشیا فلسطینی کاز کا حامی اور تنازع کے 'دو ریاستی حل' کی وکالت کرتا رہا ہے جب کہ اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
ماضی میں حماس کے کئی رہنما ملائیشیا کے دورے کر چکے ہیں اور اس دوران وہ وزرائے اعظم سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد مغربی دباؤ کے باوجود انور ابراہیم نے حماس کے حملوں کی مذمت نہیں کی تھی۔
امریکہ نے فلسطینیوں سے متعلق ملائیشیا کے مؤقف پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا تھا۔
'غزہ کا اسپتال صرف فلسطینیوں کے لیے ہے'
دوسری جانب انڈونیشیا نے اسرائیلی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں اس کی جانب سے قائم کیا گیا اسپتال خالصتاً فلسطینیوں کے لیے ہے۔
اسرائیل نے الزام عائد کیا تھا کہ حماس انتہائی منظم طریقے سے اسپتالوں کو جنگ میں استعمال کر رہی ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی غزہ میں اسپتالوں کے نیچے سرنگوں، کمانڈ سینٹرز اور راکٹ لانچرز کے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
حماس نے اسرائیلی کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا جھوٹا پروپیگنڈہ قرار دیا تھا۔
منگل کو انڈونیشن وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "غزہ میں انڈونیشیا نے اپنے عوام کے تعاون سے فلسطینیوں کے لیے محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر استعمال بنایا ہے۔ مذکورہ اسپتال فلسطینی حکام چلاتے ہیں جب کہ کچھ انڈونیشن رضاکار اس میں معاونت کرتے ہیں۔"
انڈونیشین وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ اسپتال اس وقت گنجائش سے زیادہ مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔
اسپتال کو فنڈ فراہم کرنے والے رضاکار گروپ کے سربراہ ساربینی عبدالمراد نے منگل کو 'رائٹرز' کو بتایا کہ اسپتال میں ایندھن ختم ہو گیا ہے اور اب یہ غیر فعال ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد بھی بھیجی تھی۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔