امریکی کانگریس کے ایک پینل نے پاکستان کے لیے 45 کروڑ ڈالر کی امداد کو دہشت گرد گروپ "حقانی نیٹ ورک" کے خلاف کارروائی سے مشروط کرنے کی توثیق کی ہے۔
ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے آرمڈ سروسز کی طرف سے 2017ء کے نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ (این ڈی اے اے) میں پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
کانگریس کے بعض ارکان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان صرف اپنے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور وہ حقانی نیٹ ورک کی طرف سے مبینہ طور پر چشم پوشی کر رہا ہے۔
امریکہ، حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ اس گروپ نے پاک افغان سرحد پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے یہ افغانستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرتا ہے۔
تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے اور اس نے اپنے ہاں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ اس کے بقول حقانی نیٹ ورک افغان علاقوں میں ہے لہذا ان کے خلاف کارروائی اس ملک کرنی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ ہی امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ کانگریس کے بعض اراکین کی طرف سے اعتراض کے بعد اب پاکستان کو آٹھ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے 43 کروڑ ڈالر کی اعانت فراہم نہیں کی جائے گی اور اگر اسے یہ طیارے خریدنے ہیں تو اسے اپنے وسائل استعمال کرنا ہوں گے۔
پاکستان میں حکمران جماعت کے قانون ساز اور قومی اسمبلی میں امور خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضل وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سے متعلق کافی وضاحت دے چکا ہے اور امریکہ کی طرف سے اس ضمن میں امداد کی فراہمی کو مشروط کرنا مناسب نہیں۔
"اس قسم کی شرائط ہر وقت ان (امریکہ) کی جیب میں ہوتی ہیں کہ اب ہم نے کون سے شرط عائد کرنی ہے جسے پاکستان پورا نہیں کر سکے گا یا اسے اپنی پالیسی تبدیلی کرنا پڑے گی، ہمیں یہ بات بڑی مشکل سے سمجھ آئی ہے کہ ہم اپنے ہمسائے نہیں بدل سکتے، ہمسائیوں کے ساتھ ہمیں تعلقات کی بنیاد رکھنی ہے جس پر ہمیں امریکہ یا یورپ ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔"
سینیئر تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے معاملے پر پاکستان اور امریکہ کے موقف اور نظریے میں فرق ہے جس کی وجہ سے مالی مدد یا فنڈ کو مشروط کرنے کا بیانیہ سامنے آتا رہتا ہے۔
"پاکستان، افغانستان کی اندرونی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہ رہا، لیکن ظاہر ہے امریکی تو وہ دیکھیں گے جو ان کے مفادات ہیں۔۔۔پاکستان تو یہ کہتا ہے کہ وہ سب کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور اگر حقانی نیٹ ورک نے خود کو افغانستان میں مضبوط کر لیا ہے تو ہم ان کے پیچھے تو کارروائی کے لیے نہیں جا سکتے۔ لہذا تشریخ میں فرق ہے، امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ (حقانی نیٹ ورک) ہماری طرف ہے اور ہماری تشریح یہ ہے کہ وہ دوسری طرف ہے۔"
کانگریس کے پینل کی طرف سے جس بل کی توثیق کی گئی ہے اس پر عملدرآمد سے قبل سینیٹ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس سمیت مختلف مراحل سے اس کی منظوری ضروری ہے۔
کانگریس نے گزشتہ سال بھی پاکستان کو دفاعی شعبے میں 35 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی تھی جسے صرف اسی وقت جاری کیا جائے گا جب امریکی وزیر دفاع اس بات کی تصدیق کریں گے کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ضروری اقدام کیے ہیں۔
پاکستانی فوج نے جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا جس میں حکام کے بقول 3500 کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے سیکڑوں ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔