امریکہ محکمہ خزانہ کے مطابق اگر اس سے پہلے کانگریس نے امریکی قرضے کی حد 14.3 بلین سے نہ بڑ ھائی ، تو دو اگست کو امریکہ حکومت کے پاس اخراجات کے لیے فنڈز ختم ہوجائیں گے ۔ ان کا کہناتھا کہ اگر اس شرح میں اضافہ نہ کیا گیا تو صرف امریکی معیشت کو ہی نہیں بلکہ بلکہ بین الاقوامی معاشی منڈیوں کو بھی شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
صدر اوباما اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ تین اگست کے بعد ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کے چیک مل سکیں گے یا نہیں۔
معاشی تجزیہ کاروں کاکہنا ہےکہ یہ صرف آغاز ہے ۔ قرضوں کی موجودہ شرح میں اضافہ نہ ہونے سے عالمی منڈیوں میں شدید مندی ظاہر ہوسکتی ہے ، جیسا کہ 2008ءمیں دیکھی گئی تھی۔
ماہر معاشیات حیدر باوشی کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ خسارے میں کمی کے لیے اگر بینکوں کو شرح سود میں اضافے کا کہتا ہے تواس سے عالمی مارکیٹ میں اس کی ساکھ متاثر ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ سود کی شرح بڑھنے سے گھروں کے قرضے بڑھ جائیں گے۔ لوگ کم خرچ کریں گے ، بے روزگاری بڑھے گی کیونکہ کاروبار بھی اپنے اخراجات میں کمی کی کوشش کریں گے۔
ان تمام سنگین نتائج کے نظر آنے کے باوجود سام سٹووال جیسے کچھ معاشی تجزیہ کار پر امید بھی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ کی ناکامی ممکن نہیں ہے۔
ہیدر باوشی کا کہنا ہے کہ یونان جیسی ممکنہ صورتحال ہونے کے باوجود امریکہ کی ناکامی بہت مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک عظیم معاشی مندی سے گزر چکے ہیں۔ کاروبار اس کے بعد بھی سنبھل چکے ہیں اور منافع میں جارہے ہیں ۔ امریکہ کی صورت حال یونان جتنی خراب نہیں ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہناہے کہ عام آدمی اس معاشی ناکامی کے اثرات سے بچنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوگا چاہے وہ سیاست دانوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں ۔