ایران کے ساتھ مذاکرات اور 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے تگ و دو میں تیزی آنے کے موقع پر امریکہ کی مذاکراتی ٹیم میں اختلافات کے سبب ایک سینئر رکن نے مبینہ طور پر ٹیم کی رکنیت چھوڑ دی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ایک افسر نے پیر کے روز تصدیق کی کہ امریکہ کے ایران کے لیے ڈپٹی خصوصی ایلچی رچرڈ نیفیو مذاکراتی ٹیم کا حصہ نہیں رہے۔ وہ ابھی بھی محکمۂ خارجہ کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
حکام نے رچرڈ نیفیو کے ٹیم چھوڑنے کی وجوہات نہیں بتائیں البتہ اس افسر کے مطابق انتظامیہ میں ایک برس کے بعد اہلکاروں کی تبدیلی عام بات ہے۔
امریکہ کے اخبار ’وال اسٹریٹ جنرل‘ کی رپورٹ کے مطابق رچرڈ نیفیو کے ٹیم چھوڑںے کی وجہ ٹیم میں مبینہ طور پر موجود اختلافات تھے۔اس رپورٹ کے مطابق وہ مذاکرات کے دوران سخت مؤقف اختیار کرنے کے حق میں تھے۔
اخیال رہے کہ رکن کا ٹیم سے علیحدہ ہونا ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے چند ہی ہفتے رہ گئے ہیں۔
ایران اور امریکہ کے درمیان بلواسطہ مذاکرات دو ماہ قبل شروع ہوئے تھے۔ مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ مذاکرات میں آئندہ کچھ ہفتوں میں پیش رفت ہو سکتی ہے البتہ دونوں جانب اختلافات ابھی بھی شدید ہیں۔ ایران نے مغربی طاقتوں کی جانب سے کسی بھی ڈیڈ لائن کے ماننے سے انکار کیا ہے۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جتنی دیر تک ایران جوہری معاہدے سے باہر رہے گا جوہری ہتھیار بنانے کے اتنا ہی قریب پہنچتا جائے گا۔ ایسی صورت میں اسے جوہری ہتھیار بنانے میں کم وقت چاہیے ہوگا۔ دوسری جانب ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش سے انکار کیا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے افسر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے باہر نکلنے کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے میں آگے بڑھنے کے دوران بہت زیادہ اختلافات پیدا ہوں گے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے پیر کو کہا تھا کہ امریکہ ایران کے حکام کے ساتھ براہِ راست ملنے کے لیے تیار ہے۔ ایران نے بھی اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ براہِ راست مذاکرات کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے البتہ اس نے ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ براہِ راست ملنے کے لیے تیار ہے۔ ہم نے مسلسل یہ مؤقف اپنایا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے اور دوسرے مسائل کے لیے براہِ راست مذاکرات کرنا سود مند ثابت ہوں گے۔
نیڈ پرائس کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ نے اس معاہدے کی تکمیل کے لیے ایران کی جانب سے چار امریکی قیدیوں کو چھوڑنے کی شرط کبھی نہیں رکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ امریکی اپنے گھروں کو واپس آئیں۔البتہ ان افراد کا مستقبل ایسی تجویز کے زیر رکھنا غیر یقینی ہے۔
اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔