امریکہ میں صدارتی انتخابات کے کئی ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف باقی دنیا کے صدارتی انتخاب سے مختلف ہیں، بلکہ جن سے آپ یقیناً مانوس نہیں ہوں گے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب عام تعطیل کی بجائے ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے روز ہی ہوتے ہیں اور اس دِن تمام دفاتر اور نجی ادارے کھلے ہوتے ہیں۔
جی ہاں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن کو ہفتے یا اتوار کے روز کروانے کی تمام کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
نومبر کے مہینے میں پہلے سوموار کے بعد آنے والے منگل کو الیکشن کرانے کے اس نظام کا آغاز 1845ء میں ہوا جس وقت امریکہ ایک زرعی ملک تھا۔ ہفتہ اور اتوار کھیتوں میں کام کرنے اور بدھ کا دن بازار میں اناج پہنچانے کے لیے مختص تھا اور ایسی صورت میں الیکشن کا ایک ہی دِن بچتا تھا اور وہ تھا منگل۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک بڑا ملک ہے۔ لیکن، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہاں پرصدر کا چناؤ صرف ایک تہائی امریکہ ہی کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی سب سے زیادہ گنجان آباد ریاستیں یا تو مکمل طور پر ریپبلیکن پارٹی کی حامی ہیں یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی کی یا پھر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان ریاستوں میں پہلے ہی پتا ہوتا ہے کہ یہاں جیت کس پارٹی کی ہوگی۔ اس لیےکسی پارٹی کی جیت کا انحصار ان ریاستوں پر ہے جو حالات کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں اور اُن ریاستوں کا ووٹ فیصلہ کُن ثابت ہوتا ہے اور جنھیں swing statesبھی کہا جاتا ہے۔
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ یہاں امریکہ میں اپنے حریف کے مقابلے میں کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود امیدوار صدر منتخب ہو سکتا ہے، بشرطیکہ الیکٹورل ووٹ اُن کے حصے میں زیادہ ہوں۔
ماضی قریب یعنی 2000ء کے انتخاب میں بھی ایسا ہی ہوا جب الگور جارج بش سے پانچ لاکھ سے زائد ووٹوں کے ساتھ آگے تھے لیکن الیکٹورل ووٹوں میں پیچھے رہنے کی وجہ سے الگور صدر نہیں بن سکے۔ صدر وہی امیدوار منتخب ہوتا ہےجسے 270الیکٹورل ووٹ حاصل ہو جائیں۔
اس وقت آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اگر دونوں صدارتی امیدوار برابر کے الیکٹورل ووٹ حاصل کرتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟
ایسی صورت میں، صدر کے چناؤ کا فیصلہ امریکہ کا ایوانِ نمائندگان، جب کہ نائب صدر کا فیصلہ سینیٹ میں ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ اگر اس دفعہ بھی یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے تو ایک دلچسپ سیاسی منظر دیکھنے میں آئے گا۔اُس صورت میں اِس وقت ایوان نمائندگان میں جہاں ریپلیکن پارٹی کی اکثریت ہے، بہت ممکن ہے کہ گورنر رومنی کو صدر منتخب کر لے جب کہ سینیٹ جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہے، جو بائیڈن کو نائب صدر چن لے۔ جی ہاں۔ ایسی صورت میں مِٹ رومنی صدر تو بن جائیں گے۔ تاہم، اُنھیں جو بائیڈن کو نائب صدر کی حیثیت سے برداشت کرنا پڑے گا۔ بہرحال، یہ تو ایک فرضی صورتِ حال کے حوالے سے بات تھی۔
امریکہ میں ایک اور عجیب بات خطاب کے حوالے سے ہے، یعنی اگر آپ ایک دفعہ امریکہ کے صدر بنے تو آپ ہمیشہ یعنی عہدہ چھوڑنے کے بعد صدر ہی کہلائیں گے۔ مثال کے روز پر صدر بش، صدر کلنٹن، صدر کارٹر وغیرہ جو اِس وقت صدر تو نہیں ہیں لیکن اب ان کے نام سے پہلے صدر لگایا جاتا ہے، چونکہ یہ خطاب اُن کی زندگی بھر کے لیے ہے۔
اِس کے علاوہ، نیواڈا امریکہ کی وہ واحد ریاست ہے جہاں ووٹر کو کسی امیدوار کو منتخب نہ کرنے کا اختیار حاصل ہے، یعنی کوئی بھی ووٹر احتجاجاً اپنی پرچی پر یہ لکھ کر کہ ’کسی کے لیے بھی ووٹ نہیں‘ ووٹ ڈال سکتا ہے۔
اِس کے علاوہ، نارتھ ڈکوٹا وہ واحد امریکی ریاست ہے جہاں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹریشن ضروری نہیں ہے۔
اِن باتوں کے علاوہ، اِس کا اعادہ بھی مناسب ہوگا کہ امریکہ میں ووٹرز براہِ راست صدر کا انتخاب نہیں کرتے، بلکہ یہ انتخاب بالواسطہ طور پرعمل میں آتا ہے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب عام تعطیل کی بجائے ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے روز ہی ہوتے ہیں اور اس دِن تمام دفاتر اور نجی ادارے کھلے ہوتے ہیں۔
جی ہاں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن کو ہفتے یا اتوار کے روز کروانے کی تمام کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
نومبر کے مہینے میں پہلے سوموار کے بعد آنے والے منگل کو الیکشن کرانے کے اس نظام کا آغاز 1845ء میں ہوا جس وقت امریکہ ایک زرعی ملک تھا۔ ہفتہ اور اتوار کھیتوں میں کام کرنے اور بدھ کا دن بازار میں اناج پہنچانے کے لیے مختص تھا اور ایسی صورت میں الیکشن کا ایک ہی دِن بچتا تھا اور وہ تھا منگل۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک بڑا ملک ہے۔ لیکن، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہاں پرصدر کا چناؤ صرف ایک تہائی امریکہ ہی کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی سب سے زیادہ گنجان آباد ریاستیں یا تو مکمل طور پر ریپبلیکن پارٹی کی حامی ہیں یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی کی یا پھر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان ریاستوں میں پہلے ہی پتا ہوتا ہے کہ یہاں جیت کس پارٹی کی ہوگی۔ اس لیےکسی پارٹی کی جیت کا انحصار ان ریاستوں پر ہے جو حالات کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں اور اُن ریاستوں کا ووٹ فیصلہ کُن ثابت ہوتا ہے اور جنھیں swing statesبھی کہا جاتا ہے۔
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ یہاں امریکہ میں اپنے حریف کے مقابلے میں کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود امیدوار صدر منتخب ہو سکتا ہے، بشرطیکہ الیکٹورل ووٹ اُن کے حصے میں زیادہ ہوں۔
ماضی قریب یعنی 2000ء کے انتخاب میں بھی ایسا ہی ہوا جب الگور جارج بش سے پانچ لاکھ سے زائد ووٹوں کے ساتھ آگے تھے لیکن الیکٹورل ووٹوں میں پیچھے رہنے کی وجہ سے الگور صدر نہیں بن سکے۔ صدر وہی امیدوار منتخب ہوتا ہےجسے 270الیکٹورل ووٹ حاصل ہو جائیں۔
اس وقت آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اگر دونوں صدارتی امیدوار برابر کے الیکٹورل ووٹ حاصل کرتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟
ایسی صورت میں، صدر کے چناؤ کا فیصلہ امریکہ کا ایوانِ نمائندگان، جب کہ نائب صدر کا فیصلہ سینیٹ میں ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ اگر اس دفعہ بھی یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے تو ایک دلچسپ سیاسی منظر دیکھنے میں آئے گا۔اُس صورت میں اِس وقت ایوان نمائندگان میں جہاں ریپلیکن پارٹی کی اکثریت ہے، بہت ممکن ہے کہ گورنر رومنی کو صدر منتخب کر لے جب کہ سینیٹ جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہے، جو بائیڈن کو نائب صدر چن لے۔ جی ہاں۔ ایسی صورت میں مِٹ رومنی صدر تو بن جائیں گے۔ تاہم، اُنھیں جو بائیڈن کو نائب صدر کی حیثیت سے برداشت کرنا پڑے گا۔ بہرحال، یہ تو ایک فرضی صورتِ حال کے حوالے سے بات تھی۔
امریکہ میں ایک اور عجیب بات خطاب کے حوالے سے ہے، یعنی اگر آپ ایک دفعہ امریکہ کے صدر بنے تو آپ ہمیشہ یعنی عہدہ چھوڑنے کے بعد صدر ہی کہلائیں گے۔ مثال کے روز پر صدر بش، صدر کلنٹن، صدر کارٹر وغیرہ جو اِس وقت صدر تو نہیں ہیں لیکن اب ان کے نام سے پہلے صدر لگایا جاتا ہے، چونکہ یہ خطاب اُن کی زندگی بھر کے لیے ہے۔
اِس کے علاوہ، نیواڈا امریکہ کی وہ واحد ریاست ہے جہاں ووٹر کو کسی امیدوار کو منتخب نہ کرنے کا اختیار حاصل ہے، یعنی کوئی بھی ووٹر احتجاجاً اپنی پرچی پر یہ لکھ کر کہ ’کسی کے لیے بھی ووٹ نہیں‘ ووٹ ڈال سکتا ہے۔
اِس کے علاوہ، نارتھ ڈکوٹا وہ واحد امریکی ریاست ہے جہاں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹریشن ضروری نہیں ہے۔
اِن باتوں کے علاوہ، اِس کا اعادہ بھی مناسب ہوگا کہ امریکہ میں ووٹرز براہِ راست صدر کا انتخاب نہیں کرتے، بلکہ یہ انتخاب بالواسطہ طور پرعمل میں آتا ہے۔