کئی حالیہ قومی جائزوں کے مطابق، اوباما رومنی مقابلے میں یا تو دونوں کے ووٹ برابر ہیں یا صدر کو بہت معمولی سے سبقت حاصل ہے ۔ مثلاً گیلپ کے حالیہ جائزوں کے مطابق، رومنی اور مسٹر اوباما دونوں کے ووٹ 46 فیصد ہیں۔ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال کی انتخابی مہم میں ملکی معیشت سب سے زیادہ اہم ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر کو اپنے ریکارڈ کے دفاع میں بہت زیادہ وقت صرف کرنا ہوگا۔
کین ڈبرسٹیئن 1980 کی دہائی میں صدر رونلڈ ریگن کے چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’بر سرِ اقتدار صدر ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ لیکن براک اوباما کا مسئلہ ایسی معیشت بھی ہے جس میں بحالی کا عمل سست ہے ۔ امریکہ کے لوگ ہمیشہ اپنی جیب دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ اگر میں اوباما کے حامیوں میں ہوتا، تو میں اگلے سات مہینوں میں بہتر اقتصادی خبر کی دعا مانگ رہا ہوتا۔‘‘
ڈیموکریٹس اچھی طرح جانتے ہیں کہ عام لوگ ملکی معیشت کی حالت سے مطمئن نہیں ہیں۔
اوباما کی انتخابی مہم کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انتخاب کو صدر کے عہدے کے پہلے تین برسوں کے بارے میں ریفرنڈم نہ بنایا جائے بلکہ اس کے ذریعے یہ طے کیا جائے کہ ملک کو وہ سمت اختیار کرنی چاہیئے جو اوباما نے اختیار کی ہے یا وہ جو مسٹر رومنی نے پیش کی ہے ۔ رومنی نے صدر کے علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے دور رس قانون کو منسوخ کرنے ، اور وفاقی حکومت کے اختیارات محدود کرنے کا عہد کیا ہے ۔
سیاسی تجزیہ کار روہڈز کک کہتے ہیں کہ اس سال کے انتخاب کے مباحثے میں مرکزی مقام اس سوال کو حاصل ہو گا کہ حکومت کا سائز اور اس کے اختیارات کتنے ہونے چاہئیں۔’’اس انتخاب میں لوگوں کو صحیح معنوں میں ایک فیصلہ کرنا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ وائٹ ہاؤس کے لیے کسے منتخب کرتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ طرزِ حکومت کا فلسفہ کیا ہوگا، اس کا تعین اس بات سے ہوگا کہ آپ کسے منتخب کرتے ہیں۔‘‘
رومنی کی انتخابی مہم میں صدر کے معاشی ریکارڈ پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور مسٹر رومنی کے کاروباری پس منظر پر زور دیا جائے گا۔
صدر کے حامی ملکی معیشت میں آنے والی بہتری کی کچھ علامتوں کی طرف توجہ دلائیں گے اور کہیں گے کہ انتظامیہ نے ملک کو صحیح سمت میں ڈال دیا ہے ۔
ان کی یہ کوشش بھی ہوگی کہ وہ گورنر رومنی کو ایسا صدارتی امید وار بنا کر پیش کریں جو ملک کو ریپبلیکن اقتصادی پالیسیوں کو طرف واپس لے جانا چاہتا ہے جو در اصل ملک کی خراب اقتصادی حالت کی اصل وجہ ہیں۔
گیلپ کے پولسٹر فرینک نیو پورٹ نے نومبر میں ایسے انتخاب کی پیش گوئی کی ہے جس میں برابر کا مقابلہ ہوگا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ذاتی طور پر مسٹر رومنی کے مقابلے میں لوگ صدر اوباما کو زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن ووٹروں کو معیشت کو ٹھیک کرنے کے معاملے میں صدر کی اہلیت پر اب بھی شبہ ہے ۔
نیو پورٹ کہتے ہیں’’آپ ووٹروں کے ساتھ رابطہ قائم کر سکتے ہیں یا نہیں، اس سے یقیناً فرق پڑتا ہے، اور اس معاملے میں براک اوباما کو یقیناً سبقت حاصل ہے ۔ ان کی شخصیت میں ایک قسم کی گرم جوشی پائی جاتی ہے ۔ مٹ رومنی، انکے مقابلے میں ٹھنڈے مزاج کے ، زیادہ سوچ سمجھ کر اقدام کرنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ لیکن رومنی کی انتخابی مہم کوشش کرے گی کہ ان کی شخصیت کے اس پہلو کو ان کے حق میں لے جائے ۔ ہاں، ٹھیک ہے، وہ کوئی دوستانہ ، گرم جوش شخصیت نہیں ہیں، لیکن انھوں نے حکومت چلانے میں نہایت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، اور وہ معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
چار سال قبل، مسٹر اوباما نے ریپبلیکن امید وار جان مکین کو عوامی ووٹوں میں ، اور ریاستوں کے الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں ، جن سے یہ طے ہوتا ہے کہ اگلا صدر کون ہو گا، اچھی خاصی اکثریت سے شکست دی تھی۔
اس سال ماہرین 2000 اور 2004 کے خطوط پر، کہیں زیادہ سخت مقابلے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مقابلے کا فیصلہ شاید ایک درجن ایسی ریاستوں میں ہوگا جہاں انتخاب کے نتائج کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے ۔ان ریاستوں کو بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں دونوں میں سے کوئی بھی امید وار جیت سکتا ہے ۔