اوباما اور رومنی کے درمیان انتخابی مہموں میں نوک جھونک شروع ہو چکی ہے اور تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ اب سے لے کر نومبر تک یہ طویل انتخابی مہم بڑی حد تک منفی ہوگی۔
امریکہ میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والوں میں گیلپ آرگنائزیشن کا نام بہت معتبر سمجھا جاتا ہے۔ فرانک نیوپورٹ اسی تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ تمام چیزوں کو سامنے رکھیں تو میرا خیال یہ ہے کہ اس مرحلے پر یہ مقابلہ بالکل برابر کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم نے لوگوں سے پوچھا کہ اگر الیکشن آج ہوتا ہے، تو آپ کسے ووٹ دیں گے، تو امریکہ میں، دونوں امیدواروں کو ووٹ دینے والوں کی تعداد بالکل برابر، یعنی 46 فیصد رہی۔‘‘
اگر یہ پیش گوئیاں صحیح ثابت ہوتی ہیں، تو 2012ء کا مقابلہ دوسرے حالیہ صدارتی انتخابات کی طرح ہو گا۔ ان میں 2000ء اور 2004ء کے انتخابات شامل ہیں۔
بیشتر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس سال کی انتخابی مہم میں اہم مسئلہ معیشت کا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ووٹرز کو مسٹر اوباما پر اتنا اعتماد ہے کہ وہ انہیں مزید چار سال تک صدارت کا موقع دیں یا وہ ان کے بجائے رومنی کو لے آئیں۔
رومنی 1,144 ڈیلی گیٹس کے حصول کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ وہ تعداد ہے جو ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں بیشتر توجہ معیشت کے بارے میں اوباما کی پالیسیوں کی طرف مرکوز کی ہے۔ ان کے مطابق ’’انھوں نے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے اور زیادہ قرض لیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ صدر ایسا ہو جو صحیح معنوں میں لیڈر ہو، جو ملک کی قیادت کرے۔ میں آپ کو اس قرض سے اور اندھا دھند خرچ سے نجات دلاؤں گا۔‘‘
چار سال قبل آسانی سے فتح حاصل کرنے کے بعد، صدر اس بار اپنے ڈیموکریٹک حامیوں کو انتباہ کر رہے ہیں کہ اس سال مقابلہ بہت سخت ہو گا۔ حال ہی میں، مسٹر اوباما نے نیو یارک میں انتخابی مہم کے لیے فنڈ جمع کرنے کے ایک اجتماع میں کہا کہ ’’مجھے آپ سب کی ضرورت پڑے گی۔ یہ مقابلہ بہت سخت ہو گا۔ کسی کو یہ فرض نہیں کرنا چاہیئے کہ ہم آسانی سے جیت جائیں گے۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ووٹرز ذاتی حیثیت میں، مسٹر اوباما کو رومنی کے مقابلے میں زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن بہت سے جائزوں میں، رومنی کو معیشت کو چلانے کے معاملے میں معمولی سی برتری حاصل ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں ایک سیاسی ماہر، تھامس مین کہتے ہیں کہ نومبر میں فیصلہ کُن چیز یہ ہوگی کہ معیشت کے بارے میں عام لوگوں کا تاثر کیا ہے ۔
’’میں تو یہ کہوں گا کہ اہم ترین چیز یہ ہے کہ کیا معیشت میں کچھ جان پڑ رہی ہے اور وہ آگے بڑھ رہی ہے یا وہ پھر انحطاط کی طرف جا رہی ہے۔ اگر اس میں پھر انحطاط آ رہا ہے تو پھر اوباما کا دوبارہ منتخب ہونا سخت خطرے میں ہے۔‘‘
2004ء میں صدر جارج ڈبلو بش اور ڈیموکریٹ جان کیری کے درمیان مقابلے کی طرح، اس سال دونوں امیدوار اپنی اپنی پارٹیوں کے حامیوں پر انحصار کریں گے کہ وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آئیں۔
لیکن جن انتخابات میں برابر کا مقابلہ ہوتا ہے، ان کا فیصلہ عام طورسے غیر جانبدار ووٹر کرتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو کسی بھی پارٹی کے کٹر حامی نہیں ہوتے، اور جو انتخاب کے دن کسی کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔
کین ڈبرسٹین 1980ء کی دہائی میں صدر رونلڈ ریگن کے چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جن ووٹوں سے واقعی فرق پڑے گا وہ غیر جانبدار لوگوں کے ووٹ ہیں۔ اگر دونوں پارٹیوں کے کٹر حامی ووٹ ڈالنے آتے ہیں، تو کوئی بھی نہیں جیتے گا۔ اصل لڑائی غیر جانبدار ووٹوں کے لیے ہے۔ لہٰذا آپ کو اپنے ووٹروں کا حلقہ وسیع کرنا چاہیئے اور خود کو صرف اپنے موجودہ حامیوں تک محدود نہیں کرنا چاہیئے۔‘‘
اگرچہ یہ انتخابی مہم بہت تند و تیز ہو گی، لیکن رومنی نے صدر کے خلاف ایک مجوزہ حملے کی مہم کو مسترد کر دیا ہے جو ایک مالدار قدامت پسند بزنس مین جو رکیٹس کی ایما پر تیار کی گئی تھی۔
نیو یارک ٹائمز نے کہا کہ ایک کروڑ ڈالر کی ایک اشتہاری مہم کا مقصد ، جس کے لیے رکیٹس رقم فراہم کرنا چاہتے تھے، یہ تھا کہ متنازعہ پادری جیریمیاہ رائٹ کے ساتھ ، ماضی میں مسٹر اوباما کے تعلقات کو پھر سے زندہ کیا جائے۔ لیکن اب ایک ترجمان نے کہا ہے کہ رکیٹس نے مجوزہ مہم مسترد کر دی ہے۔ ریپبلیکن امیدوار جان مکین نے ایسی ہی ایک مہم کی مخالفت کی تھی جب 2008ء میں وہ مسٹر اوباما کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔