رسائی کے لنکس

امریکہ بحیرۂ جنوبی چین میں بھارت کے ساتھ مزید تعاون کا خواہاں


مشرقی ایشیا کے لیے اعلیٰ امریکی سفارت کار، ڈینیل کرٹن برنک۔ فائل فوٹو
مشرقی ایشیا کے لیے اعلیٰ امریکی سفارت کار، ڈینیل کرٹن برنک۔ فائل فوٹو

مشرقی ایشیا کے لیے اعلیٰ امریکی سفارت کار ڈینیل کرٹن برنک نے کہا ہے کہ وہ بحیرۂ جنوبی چین کے مسائل پر امریکہ اور بھارت میں شراکت داری کی توقع رکھتے ہیں۔

امریکہ اور بھارت نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی کے واشنگٹن کے سرکاری دورے کے دوران خود کو 'دنیا کے قریب ترین شراکت داروں میں سےایک' قرار دیا تھا اوربحیرۂ جنوبی چین سمیت سمندری قوانین پر مبنی آرڈر کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی قانون کی پاسداری پر زور دیا تھا۔

کرٹن برنک نے واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کو بتایا کہ امریکہ نے متنازع پانیوں میں چین کی جانب سے "زور زبردستی" کا واضح اور بڑ ھتا ہوا رجحان' دیکھا ہے۔

بحیرہ جنوبی چین میں بھارت کے بڑھتے ہوئے کردار اور اس ضمن میں امریکہ کے ساتھ تعاون سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ 'کواڈ' نامی علاقائی طاقتوں کے ایک گروپ کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوگا جس میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیاشامل ہیں۔

امریکی سفارت کار نے کہا کہ اس خطے میں امریکہ کی توجہ اپنے اتحادیوں اور دوستوں کی صلاحیت میں اضافہ ہے جو پرامن اور مستحکم دنیا کا وژن رکھتے ہیں۔

کرٹن برنک نےمزید کہا، "ہم کسی بھی ایسے ملک کے ساتھ تعاون کا خیرمقدم کریں گے جو اس وژن کو قبول کرتا ہے۔ اس میں یقیناً بھارت بھی شامل ہے۔"

انہوں نے بحیرۂ جنوبی چین کے دیگر دعویداروں کے ساتھ چین کے تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "بڑے ملکوں کو چھوٹے ممالک کو 'دھمکانا ' نہیں چاہیے۔"

اگرچہ بھارت جنوبی بحیرۂ چین کا دعویدار نہیں ہے، تاہم اس نے حالیہ برسوں میں خطے میں سیکیورٹی پر مبنی تعلقات میں اضافہ کیاہے، جو چین کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں زیادہ بڑا کردار ادا کرنے کے اس کے ارادے کا اشارہ دیتا ہے۔چین خطے کے ممالک کے ساتھ علاقے کی ملکیت کے متعدد تنازعات میں ملوث ہے۔

بھارتی بحریہ نے بدھ کو کہاتھا کہ وہ ویتنام کو ایک’ ایکٹیو ڈیوٹی میزائل کارویٹ‘ تحفے کے طور پر بھیج رہا ہے، یہ پہلا جنگی جہاز ہے جو بھارت نے کسی بھی ملک کو دیا ہے۔

بحیرۂ جنوبی چین دنیا کے اہم تجارتی راستوں میں سے ایک ہے جس کے متنازع حصوں میں بہت زیادہ کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہ بحری راستہ سالانہ تین ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی تجارت کا ایک راستہ بھی ہے۔

چین تقریباً پورے جنوبی بحیرہ چین پر اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ تنازعات کو بیرونی مداخلت کے بغیر حل کرنے کے لیے خطے کے ممالک پر چھوڑ دینا چاہیے۔

امریکی سفارت کار، برنک کاکہنا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کا اشتعال انگیز رویہ کاروبار کے لیے خطرات میں اضافہ کر رہا ہے۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات خبر رساں ادارے ' رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG