واشنگٹن —
واشنگٹن میں سرکاری حلقوں اور ملک بھر میں امریکیوں نے اطمینان کا سانس لیا ہے کہ امریکی کانگریس نے فسکل کلف یعنی بجٹ میں لازمی کمی اور ٹیکسوں میں اضافے سے بچنے کے لیے مصالحت کا جزوی سمجھوتہ منظور کر لیا ہے۔ اگر یہ سمجھوتہ نہ ہوتا ، تو امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی تھی۔ لیکن چند ہفتے بعد ہی، وائٹ ہاؤس اور امریکی کانگریس کے درمیان سرکاری اخراجات اور ٹیکسوں کے بارے میں نئے معرکے شروع ہونے والے ہیں۔
مہینوں کی سیاسی بحث و تمحیص کے بعد، صدر براک اوباما اور امریکی کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کے درمیان ایک سمجھوتہ طے پا گیا جس کے تحت تمام امریکیوں کو ٹیکسوں میں اضافے سے بچایا جا سکے گا۔
لیکن اس سمجھوتے سے وفاقی حکومت کے اخراجات کے بارے میں جاری مسلسل جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا۔ نومبر کے عام انتخابات میں شکست کے باوجود، ریپبلیکنز آنے والے مہینوں میں سرکاری اخراجات کم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
اگلا بڑا معرکہ اگلے مہینے ہو سکتا ہے جب قرض کی حد میں اضافے کے لیے کانگریس کی منظوری ضروری ہو گی تا کہ حکومت اپنے اخراجات کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لے سکے ۔
صدر اوباما نے ریپبلیکنز کو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اگر سرکاری اخراجات میں کمی کا مطالبہ کرنے کے لیے قرض کی حد میں اضافے کو روکنے کی کوشش کی گئی، تو اس سے ملک کی کمزور معیشت کی بحالی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
’’میں بہت سے معاملات پر مذاکرات کرتا ہوں، لیکن میں کانگریس کے ساتھ اس معاملے پر ایک اور بحث میں نہیں الجھوں گا کہ انہیں وہ بل ادا کرنے چاہئیں یا نہیں جو ان کے منظور کیے ہوئے قوانین کی بدولت انھوں نے پہلے ہی جمع کر لیے ہیں۔‘‘
لیکن ریپبلیکنز، جیسے ایوانِ نمائندگان میں ریاست الاباما کے رکن سپینسر باکس اس بات پر نا خوش ہیں کہ تازہ ترین سمجھوتے میں ٹیکسوں میں اضافے کو روکا گیا ہے، لیکن سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ ’’اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے ۔ ہم قرض میں روزانہ 4 ارب ڈالر کا اضافہ کر رہےہیں۔‘‘
توقع ہے کہ اخراجات میں کمی کی جنگ دو مہینوں میں پھر شروع ہو جائے گی جب کانگریس کو دفاعی اور ملکی اخراجات میں لازمی کمی سے بچنے کے لیے کارروائی کرنی پڑے گی۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر ڈیڈلاک سے بچنے کے لیے ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں کو کچھ لو اور کچھ دو کے جذبے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
کین ڈوبرسٹئین صدر رونلڈ ریگن کے عہد میں وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف تھے۔ وہ کہتےہیں کہ ریپبلیکنز کو یہ بات قبول کرنی ہوگی کہ اگلے چار برسوں تک انہیں صدر براک اوباما سے سابقہ پڑے گا۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ صدر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریپبلیکن قانون سازوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھیں ۔ صر ف اسی طرح دونوں فریق مسٹر اوباما کی صدارت کی دوسری مدت میں اچھی طرح کام کر سکتے ہیں ۔
’’دوسری مدت والے صدور کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ہر چیز آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ آپ کو تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیئے۔ آپ کو کچھ زیادہ رعایتیں دینی چاہئیں۔‘‘
اگر چہ مسٹر اوباما نے نومبر میں صدارتی انتخاب جیت لیا، پھر بھی بہت سے ریپبلیکنز خود کو ڈیموکریٹک صدر کے برابر ہی سمجھتے ہیں کیوں کہ انھوں نے ایوانِ نمائندگان میں اپنی اکثریت برقرار رکھی ہے۔
لیری سباتو یونیورسٹی آف ورجینیا میں سنٹر فار پالیٹکس کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’پرانے زمانے میں ، آج کل کے مقابلے میں انتخابات کی اہمیت زیادہ ہوتی تھی۔ دوبارہ منتخب ہونے والے صدر کے پاس واضح طور پر کچھ کرنے کا اختیار ہوتا تھا، بشرطیکہ انھوں نے اچھی خاصی اکثریت سے انتخاب جیتا ہوتا ۔ اوباما کو چار فیصد عوامی ووٹ زیادہ ملے۔ کئی عشرے پہلے یہ اکثریت کانگریس سے اپنی ترجیح منظور کرانے کے لیے کافی ہوتی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ۔‘‘
توقع ہے کہ اس سال کانگریس آتشیں اسلحہ پر کنٹرول اور امیگریشن میں اصلاحات کے مسائل سے بھی نمٹے گی۔ یہ وہ دو شعبے ہیں جن کے بارے میں صدر نے کہا ہے کہ وہ اپنی صدارت کی دوسری مدت میں کچھ کرنا چاہیں گے۔
اگرچہ نئی کانگریس میں ڈیموکریٹس کے پاس زیادہ نشستیں ہیں، سینیٹ میں اکثریت ڈیموکریٹس کے پاس ہے، اور ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکنز کی اکثریت ہے اور وہی اسے کنٹرول کرتے ہیں۔ یوں اصل مقابلہ سینیٹ کے ڈیموکریٹس اور ایوانِ نمائندگان کے ریپبلیکنز کے درمیان ہے ۔
مہینوں کی سیاسی بحث و تمحیص کے بعد، صدر براک اوباما اور امریکی کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کے درمیان ایک سمجھوتہ طے پا گیا جس کے تحت تمام امریکیوں کو ٹیکسوں میں اضافے سے بچایا جا سکے گا۔
لیکن اس سمجھوتے سے وفاقی حکومت کے اخراجات کے بارے میں جاری مسلسل جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا۔ نومبر کے عام انتخابات میں شکست کے باوجود، ریپبلیکنز آنے والے مہینوں میں سرکاری اخراجات کم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
اگلا بڑا معرکہ اگلے مہینے ہو سکتا ہے جب قرض کی حد میں اضافے کے لیے کانگریس کی منظوری ضروری ہو گی تا کہ حکومت اپنے اخراجات کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لے سکے ۔
صدر اوباما نے ریپبلیکنز کو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اگر سرکاری اخراجات میں کمی کا مطالبہ کرنے کے لیے قرض کی حد میں اضافے کو روکنے کی کوشش کی گئی، تو اس سے ملک کی کمزور معیشت کی بحالی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
’’میں بہت سے معاملات پر مذاکرات کرتا ہوں، لیکن میں کانگریس کے ساتھ اس معاملے پر ایک اور بحث میں نہیں الجھوں گا کہ انہیں وہ بل ادا کرنے چاہئیں یا نہیں جو ان کے منظور کیے ہوئے قوانین کی بدولت انھوں نے پہلے ہی جمع کر لیے ہیں۔‘‘
لیکن ریپبلیکنز، جیسے ایوانِ نمائندگان میں ریاست الاباما کے رکن سپینسر باکس اس بات پر نا خوش ہیں کہ تازہ ترین سمجھوتے میں ٹیکسوں میں اضافے کو روکا گیا ہے، لیکن سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ ’’اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے ۔ ہم قرض میں روزانہ 4 ارب ڈالر کا اضافہ کر رہےہیں۔‘‘
توقع ہے کہ اخراجات میں کمی کی جنگ دو مہینوں میں پھر شروع ہو جائے گی جب کانگریس کو دفاعی اور ملکی اخراجات میں لازمی کمی سے بچنے کے لیے کارروائی کرنی پڑے گی۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر ڈیڈلاک سے بچنے کے لیے ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں کو کچھ لو اور کچھ دو کے جذبے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
کین ڈوبرسٹئین صدر رونلڈ ریگن کے عہد میں وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف تھے۔ وہ کہتےہیں کہ ریپبلیکنز کو یہ بات قبول کرنی ہوگی کہ اگلے چار برسوں تک انہیں صدر براک اوباما سے سابقہ پڑے گا۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ صدر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریپبلیکن قانون سازوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھیں ۔ صر ف اسی طرح دونوں فریق مسٹر اوباما کی صدارت کی دوسری مدت میں اچھی طرح کام کر سکتے ہیں ۔
’’دوسری مدت والے صدور کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ہر چیز آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ آپ کو تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیئے۔ آپ کو کچھ زیادہ رعایتیں دینی چاہئیں۔‘‘
اگر چہ مسٹر اوباما نے نومبر میں صدارتی انتخاب جیت لیا، پھر بھی بہت سے ریپبلیکنز خود کو ڈیموکریٹک صدر کے برابر ہی سمجھتے ہیں کیوں کہ انھوں نے ایوانِ نمائندگان میں اپنی اکثریت برقرار رکھی ہے۔
لیری سباتو یونیورسٹی آف ورجینیا میں سنٹر فار پالیٹکس کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’پرانے زمانے میں ، آج کل کے مقابلے میں انتخابات کی اہمیت زیادہ ہوتی تھی۔ دوبارہ منتخب ہونے والے صدر کے پاس واضح طور پر کچھ کرنے کا اختیار ہوتا تھا، بشرطیکہ انھوں نے اچھی خاصی اکثریت سے انتخاب جیتا ہوتا ۔ اوباما کو چار فیصد عوامی ووٹ زیادہ ملے۔ کئی عشرے پہلے یہ اکثریت کانگریس سے اپنی ترجیح منظور کرانے کے لیے کافی ہوتی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ۔‘‘
توقع ہے کہ اس سال کانگریس آتشیں اسلحہ پر کنٹرول اور امیگریشن میں اصلاحات کے مسائل سے بھی نمٹے گی۔ یہ وہ دو شعبے ہیں جن کے بارے میں صدر نے کہا ہے کہ وہ اپنی صدارت کی دوسری مدت میں کچھ کرنا چاہیں گے۔
اگرچہ نئی کانگریس میں ڈیموکریٹس کے پاس زیادہ نشستیں ہیں، سینیٹ میں اکثریت ڈیموکریٹس کے پاس ہے، اور ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکنز کی اکثریت ہے اور وہی اسے کنٹرول کرتے ہیں۔ یوں اصل مقابلہ سینیٹ کے ڈیموکریٹس اور ایوانِ نمائندگان کے ریپبلیکنز کے درمیان ہے ۔