وائٹ ہاؤس کے اقتصادی مشیر لیری کُڈلو کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لیے چینی برآمدات پر لگائے جانے والے محصولات امریکی درآمدکنندگان ادا کریں گے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ محصولات چین کو ادا کرنا ہوں گے۔
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی مذاکرات جمعے کے روز ختم ہو گئے۔ مگر مذاکرات کے اختتام سے چند ہی گھنٹے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے آنے والی 200 ارب ڈالر کی مصنوعات پر محصولات میں 25 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس بارے میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں یہ محصولات امریکہ کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک طرح سے ہم پیسوں کے اس ڈبے کی مانند ہیں جس سے چین سمیت سب لوگ رقم چراتے ہیں۔
گزشتہ برس امریکہ نے چین سے امریکہ آنے والی 250 ارب ڈالر کی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کر دیے تھے، جس کے جواب میں چین نے 100 ارب ڈالر کی امریکی برآمدات پر ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ ان چینی محصولات سے ریاست ’مین‘ کی لابسٹر کمپنی سمیت امریکی کاروباروں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
لابسٹر کمپنی کی سٹیفنی ناڈو کا کہنا ہے کہ گزشتہ سردیوں کے مقابلے میں اس سال موسم سرما میں اُن کے کاروبار میں 60 فیصد کی کمی ہوئی اور اس 60 فیصد نقصان کا سو فیصد تعلق چین کے لیے امریکی برآمدی مصنوعات سے تھا۔
رپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے اتوار کے روز اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان محصولات سے امریکہ کی اقتصادی ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صدر چین کے ساتھ مذاکراتی جنگ لڑ رہے ہیں اور اُن کے خیال میں صدر ٹرمپ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ تاہم ایسے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے چینی مارکیٹ امریکہ کے برآمدکنندگان کے لیے مزید کھل سکے اور یہ بہت اچھی بات ہو گی۔
اُنہوں نے انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ یہ کام جلد مکمل کر لیا جائے کیونکہ اگر امریکہ محصولات یا تجارت کی جنگ کو طول دیتا رہا تو یہ امکان موجود ہے کہ اس سے امریکہ میں کساد بازاری شروع ہو جائے۔
صدر کے اعلیٰ ترین اقتصادی مشیر لیری کُڈلو نے اتوار کے روز فاکس نیوز کو بتایا کہ چین کی طرف سے مزید جوابی کارروائی کی توقع ہے۔
کچھ اقتصادی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نئے محصولات سے چین کی بجائے امریکہ کو زیادہ نقصان ہو گا۔
اُدھر وائٹ ہاؤس کے اقتصادی مشیر اعتراف کرتے ہیں کہ چینی درآمدات پر محصولات چین کی بجائے امریکی درآمدکنندگان کو ہی ادا کرنا پڑیں گے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ چین پر دباؤ جاری رکھنا ضروری ہے کیونکہ وہ پہلے سے طے شدہ بعض سمجھوتوں سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔