امریکی صدر براک اوباما نے بھارت کو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں مدد دینے کی پیشکش کو دہرایا ہے لیکن اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت تمام تنازعات کا کوئی حل مسلط نہیں کر سکتا۔
پیر کو نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے باضابطہ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں مسٹر اوباما نے امید ظاہر کی کہ بھارت اور پاکستان کشمیر میں جاری کشیدگی میں کمی لانے کی راہیں تلاش کر لیں گے۔
مسٹر سنگھ نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کا خیر مقدم کریں گے لیکن اسلام آباد سے بات چیت کے عمل کا آغاز پاکستان میں سرگرم دہشت گرد عناصر کی موجودگی میں نہیں ہو سکتا ۔
بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث انتہاپسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اِن حملوں میں 160 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بھارتی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان میں شدت پسند عناصر کے خاتمے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک بھارت سے مذاکرات کا خواہاں ہے۔ انھوں نے کہا’’ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اورہم نے نہ تو پاکستان کی سرزمین کو بھارت سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے دیا ہے اور نہ ہونے دیں گے‘‘۔
نیوز کانفرنس میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ اور بھارت اس بات پر متفق ہیں کہ تمام ممالک کو مل کر یہ یقینی بنانا ہو گا کہ دہشت گرد دنیا کے کسی بھی حصے میں پناہ حاصل نہ کر سکیں۔
امریکہ اور بھارت نے ایشیا اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ تصور کو آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
صدر اوباما اور وزیر اعظم سنگھ نے دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے کئی نئے معاہدوں کا خاکہ بھی پیش کیا جن کا مقصد دہشت گردی کا انسداد، خفیہ معلومات کا تبادلہ اور جوہری ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ پر بھی معاہدے کیے گئے ہیں۔
مسٹر اوباما نے بتایا کہ بھارتی پارلیمان سے خطاب میں وہ نئی دہلی کے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست کے معاملے پر بھی بات کریں گے۔
دونوں رہنماؤں نے توانائی کے صاف ذرائع کے فروغ اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر بھی بات کی۔
مسٹر اوباما کا بھارت کا چار روزہ دورہ منگل کو اختتام پذیر ہو رہا ہے جس کے بعد وہ اپنے ایشیائی ممالک کے دس روزہ دورے کی اگلی منزل انڈونیشیا پہنچیں گے۔