امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ واشنگٹن میں حکام نئی دہلی پر یہ زور دے رہے ہیں کہ وہ امریکی مصنوعات پر اپنے محصولات میں کمی کرے اور انہیں اپنی منڈیوں تک زیادہ رسائی دے۔
امریکہ نے بھارت کے تقریباً چھ ارب ڈالر مالیت کے درآمدی سامان کو میسر صفر یا کم تر محصولات کی رعائت ختم کر دی ہے جو اسے جی ایس پی کے تحت حاصل تھی۔
تین دہائیاں پہلے کے مقابلے میں حالیہ عرصے میں بھارت میں چمڑے کی مصنوعات بنانے والی انڈسٹری میں بہت تیزی اور وسعت آئی ہے۔
فرید آباد میں قائم الپائن انڈسٹری میں چمڑے کے ہینڈ بیگ، دستانے، بیلٹ، جیکٹ اور دوسری چیزیں تیار کی جاتی ہیں جن میں سے اکثر کی منزل امریکہ میں چوٹی کی برانڈ کمپنیاں ہیں۔
لیکن سجے لیکھا کو خدشہ ہے کہ ان کے اس خاندانی کاروبار کو امریکہ میں ٹیکسوں کی رعائت ختم ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صورت حال اتنی آسان نہیں ہے۔ کیونکہ اس کاروبار میں کبھی بھی اتنی گنجائش نہیں رہی کہ وہ اخراجات میں 4 سے 10 فی صد تک مزید کمی کا متحمل ہو سکے۔ اگر ہم اپنی لاگت میں کمی نہ کر سکے اور اگر صارفین قیمتوں میں اضافے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنے کاروبار کو ان ملکوں کی جانب منتقل کرنا پڑے گا جنہیں اب بھی محصولات کی رعایت حاصل ہے۔
لیکن یہ ان ایک ہزار سے زیادہ کارکنوں کے لیے بری خبر ہو گی جو سجنے کی فیکڑی میں کام کرتے ہیں۔
سنجے کا کہنا ہے کہ ایک کاروبار کے خاتمے کا مطلب روزگار کا خاتمہ ہے۔ ان بہت سے لوگوں کی روزی روٹی کا خاتمہ ہے جنہیں ہم جیسی کمپنیاں ملازم رکھتی ہیں۔ اس لیے یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔
نئی دہلی نے امریکہ کی جانب سے ٹیکسوں کی رعایت ختم کیے جانے کے رد عمل میں سیب، بادام اور اخروٹ جیسی امریکی درآ مدات پر محصولات میں اضافہ کر دیا ہے۔
برآمدی صنعتوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے اثرات چمڑے، قیمتی پتھروں اور زیورات کی صنعتوں کو متاثر کر رہے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر کارکن رکھے جاتے ہیں اور ان مصنوعات کی سب سے بڑی مارکیٹ امریکہ ہے۔
فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشنز کے نمائندے اجے ساہی کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ چاہے ہمیں کچھ اور منڈیاں مل جاتی ہیں یا ہم اپنی توجہ مقامی مارکیٹ پر مرکوز کر لیتے ہیں، لیکن ہم امریکہ کی مارکیٹ کھو رہے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی مصنوعات کی تعداد محدود ہے جن پر ہم اس حوالے سے فوکس کر سکتے ہیں کہ ہماری کمپنیاں چلتی رہیں۔ ہم اپنا بزنس چلا سکیں اور ہم ملک کے اندر روزگار کی فراہمی جاری رکھ سکیں۔
ان دنوں بھارت کی الپائن جیسی کمپنیوں کو اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ امریکی اسٹوروں پر اپنی مصنوعات کی موجودگی کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں۔