پیٹرولیم مصنوعات، گندم، چاول، سبزیاں، دالوں کی قیمتیں، بجلی گیس کے بل، اسکولوں کی فیسیں۔۔۔ ان سب چیزوں کی قیمتیں ہوش اڑا دینے والی رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔ مہنگائی میں حکومت کی کیا غلطی ہے؟، معاشی پالیسی بنانے والے اپنا کام کیوں نہیں کر رہے؟ آئی ایم ایف کے امدادی پیکج کی شرائط اتنی کڑی کیوں ہیں؟ یہ سب سوالات پاکستان میں ہر کوئی اپنی اپنی پہنچ اور سمجھ کے مطابق ہر ممکن گھریلو، دفتری یا سماجی پلیٹ فارم پر پوچھ رہا ہے اور ان کے جوابات بھی دے رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شکایت کرنے والے شہری صرف پاکستان میں نہیں، بلکہ دنیا کے کئی دیگر ملکوں اور خود امریکہ میں بھی موجود ہیں۔
امریکہ میں مہنگائی کو ایسے بن بلائے مہمان سے تشبیہ دی جارہی ہے جو گھر سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
ماہر معاشیات کئی ماہ سے یہ پیشین گوئی کر رہے تھے کہ امریکہ میں اشیا کی قیمتوں میں کئی نسلوں کے بعد ہونے والا اضافہ زیادہ عرصے برقرار نہیں رہے گا۔ امریکی فیڈرل ریزرو کے چیئرپرسن جیروم پاول کے الفاظ تھے کہ مہنگائی عارضی ہوگی۔
لیکن اگر آپ کسی بھی امریکی شہری سے بات کریں ، جو دودھ، تیل یا پرانی گاڑی خریدنے نکلا ہو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مہنگائی کی صورتحال مستقل ہو گئی ہے۔ اور معاشیات کے ماہر کہہ رہے ہیں کہ امریکہ میں مہنگائی اگلے سال تک جاری رہے گی۔
بدھ کے روز امریکی حکومت نے کہا کہ صارفین کے لیے قیمتوں کی شرح میں پچھلے سال کے مقابلے میں 6.2 فیصد اضافہ ہوا جو 1990 کے بعد ایک سال کے دوران سب سے بڑا اضافہ ہے۔
اوباما انتظامیہ میں مشیر برائے اقتصادیات رہنے والے جیسن فرمین کہتے ہیں کہ مہنگائی جاری ہے اور یہ تشویش ناک رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور اس بیانیے کے خلاف ہے جس میں مہنگائی کو عارضی بتایا جا رہا تھا۔
عام امریکی کو مہنگائی کا سب سے زیادہ احساس ناشتے کی میز پر ہوتا ہے کیونکہ بیکن کی قیمت میں گزشتہ ایک سال میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ انڈوں کی قیمتوں میں بارہ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اگر دوسری اشیا پر نظر ڈالیں تو گاڑیوں کے چلانے کو گیس کی قیمت میں پچاس فیصد، واشنگ میشین اور ڈرایئر کی قیمت میں پندرہ فیصد جبکہ استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں چھبیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ ورکرز کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہےلیکن یہ اتنا متناسب نہیں کہ جو مہنگائی کے برابر ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اگر افراط زر کو بھی حساب میں شامل کیا جائے تو اوسطاً فی گھنٹہ آمدنی میں اکتوبر 2020 کے مقابلے میں ایک اعشاریہ دو فیصد کی کمی آئی ہے۔
ویلز فارگو کمپنی کے ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے کسٹمر پرائس انڈیکس یا صارفین کے لئے قیمتوں کے انڈیکس کا نام صارفین کےلیے تکلیف کا انڈیکس ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ مسئلہ کم آمدنی والے لوگوں کے لیے ہے جن کو مہنگائی کے دور میں امریکہ کے موسم سرما کے چھٹیوں کے دنوں میں بڑی رقوم خرچ کرنا پڑ رہی ہیں۔
ان حالات میں امریکی فیڈرل ریزرو پر دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ آسان مالی پالیسیوں سے ہٹ کر فیصلے کرے ۔ یہ حالات صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹک کانگرسی رہنماوں اور ان کے بڑے خرچے والے منصوبوں کے لیے بھی خطرے سے کم نہیں۔
مہنگائ آخر کیوں ہوئی؟
مہنگائی کو اچھی خبروں کا دوسرا رخ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کووڈ نائنٹین کے باعث جب امریکی معیشت بیٹھ گئی اور لاک ڈاون سے کاروبار بند ہوگئے، تو صارفین کو گھروں تک محصور ہونا پڑا۔ مالکان نے دو کروڑ بیس لاکھ نوکریاں ختم کردیں اور اقتصادی پیداوار کی شرح گزشتہ سال کے اپریل اور جون کے دوران ریکارڈ اکتیس فیصد کی سالانہ گراوٹ کا شکار ہوئی۔
کمپنیوں نے سرمایہ کاری کو محدود کردیا، گوداموں کو مال سے بھرنا روک دیا گیا اور ایک سنگین کسادبازاری کا گویا آغاز ہوگیا۔
لیکن ان تمام خطرات اور اندیشوں کے برعکس تھوڑے ہی عرصےمیں امریکی معیشت بھرپور انداز سے بحالی کی جانب گامزن ہوگئی۔ حکومت نے بڑے پیمانے پر خرچے کیے اور فیڈرل ریزورز نے ایمرجنسی میں کئی اقدامات اٹھائے اور موسم بہارکے وقت ویکسین کے متعارف ہونے کے ساتھ ہی صارفین نے ریستورانوں، بارز اور دوکانوں کا رخ کیا۔
پھر اچانک ہی کاروباروں کو بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنےکےلیے تگ و دو کرنا پڑی۔ اور وہ اتنی تیزی سے نئے ورکرز کو ملازمتوں پر نہ لا سکے جتنی ضرورت تھی۔ یہاں تک کے اگست کے مہینے میں ایک کروڑ اور چالیس لاکھ ملازمتیں دستیاب تھیں جب کہ کاروبار تیزی سے گاہکوں کے آرڈرز پورے نہ کر سکے۔ جوں جوں کاروبار واپس آتے گئے بندرگاہیں سامان کی ترسیل کا کام سنبھال نہ پائیں۔ اور یوں سپلائی چین جیسے تھم سی گئی۔
ان حالات میں اشیا کی قیمتیں تیزی سے بڑھ گئیں اور کمپنیوں نے سمجھا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ صارفین کو منتقل کردیں گے۔ ماہر اقتصادیات فرمین کہتے ہیں کہ مہنگائی کا ایک بڑا حصہ عالمی وبا کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کے 1.9 ٹریلیئن ڈالرز ریلیف پیکیچ اور حکومتی خرچ جس میں زیادہ تر خاندانوں کے لیے 1,400 ڈالرز کے چیک بھی شامل ہیں، مل کر معیشت کو انتہائی تیز کردیا۔
وہ کہتے ہہیں کہ یورپ کے مقابلے میں امریکہ میں مہنگائی زیادہ ہے حالانکہ یورپ کو بھی سپلائی چیلنجز کا سامنا ہے۔ لیکن انہوں نے 'اسٹیمولس' پر اتنا خرچ نہیں کیا تھا جتنا امریکہ نے کیا ہے ۔
بدھ کو ایک بیان میں صدر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ "مہنگائی امریکیوں کے لیے تکلیف دہ ہے، اور اس رجحان کو پلٹنا میرے لیے اولین ترجیح ہے۔" لیکن انہوں نے کہا کہ ان کا ایک ٹریلین ڈالر کا انفراسٹرکچر پیکیج، بشمول سڑکوں، پلوں اور بندرگاہوں پر خرچ، سپلائی کی رکاوٹوں کو کم کرنے میں مدد دے گا۔
مہنگائی کب تک جاری رہے گی؟
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صارفین کے لیے مہنگائی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کمپنیاں صارفین کی اشیا اور خدمات کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں گی۔
امریکی مارکیٹ نے اس سال 5.8 ملین نئی ملازمتیں پیدا کی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی صارفین پیسہ خرچ کرتے رہیں گے لیکن سپلائی چین کی رکاوٹیں بدستور برقرار ہیں۔
ایک کمپنی بلیک کروک میں چیف انویسٹمنٹ آفیسر رِک رائیڈر کا کہنا ہے کہ "امریکی معیشت میں مانگ کا پہلو جاری رہے گا اور یہ کہ کمپنیاں مہنگائی صارفین کو منتقل کرتی رہیں گی۔
دوسری طرف ایک اور ماہر میگن گرین جو کرول انسٹی ٹیوٹ کی چیف اکانومسٹ ہیں کہتی ہیں کہ مہنگائی عارضی ثابت ہوگی اور بتدریج حالات نارمل ہو جائیں گے۔ مگر فرمین کا کہنا ہے کہ مہنگائی اس سال کی سطح سے کم تو ہوجائے گی لیکن یہ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہے گی۔
کیا 1970 کے عشرے کی سی اقتصادی جمود کی فضا باقی رہے گی؟
امریکی صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافے نے 1970 کی دہائی کی "جمود" کے سے حالات کا اندیشہ بڑھا دیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب روایتی ماہرین اقتصادیات کے خیالات کے برعکس زیادہ قیمتیں اور بے روزگاری ایک ساتھ نظر آئے۔ پھر بھی آج کی صورتحال بہت مختلف نظر آتی ہے۔ بے روزگاری نسبتاً کم ہے، اور مجموعی طور پر گھرانوں کی مالی حالت اچھی ہے۔
اقتصادی ماہر لن فرانکو کہتے ہیں کہ وقتی طور پر، کم از کم وہ محسوس کرتے ہیں کہ فوائد نقصانات سے زیادہ ہیں۔ جولائی اور ستمبر کے دوران کرونا کی انتہائی متعدی ڈیلٹا قسم کے پھیلنے کے باعث امریکی معیشت سست رہی لیکن اب 2021 کی آخری سہ ماہی میں معیشت تیزی سے بحال ہو رہی ہے۔
اقتصادی ماہر گرین کہتی ہیں کہ "زیادہ تر ماہرین اقتصادیات سال کی چوتھی سہ ماہی میں ترقی کی رفتار کی توقع کر رہے ہیں۔ لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمیں ترقی کی کمی اور زیادہ افراط زر دونوں کا سامنا ہے"۔
پالیسی سازوں کو کیا کرنا ہوگا؟
اس وقت امریکی فیڈرل ریزرو پر دباو ہے کہ وہ مہنگائی کو روکے۔ معاشیات کے ماہر فرمین کہتے ہیں کہ فیڈرل ریزرو کو یہ کہنا بند کر دینا چاہیے کہ مہنگائی عارضی ہے اور اسے اس مسئلہ پر مناسب انداز میں فکرمند ہو کر کام کرنا چاہیے۔ ابھی تک ان کے بقول، فیڈرل ریزرو کی جانب سے اس معاملے پر تھوڑی بہت حرکت نظر آئی ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو کے چیرپرسن پاول نے اعلان کیا ہے ہنگامی اقدام کے طور پر معیشت کو فروغ دینے کے لیے فیڈرل ریزرو ماہانہ بانڈ کی خریداری کو کم کرنا شروع کر دے گا جو اس نے گزشتہ سال شروع کی تھی۔
خیال رہے کہ ستمبر میں، امریکی حکام نے یہ بھی پیشن گوئی کی تھی کہ وہ 2022 کے آخر تک فیڈرل ریزرو کے بینچ مارک سود کی شرح کو صفر کے قریب اس کی ریکارڈ کم ترین سطح سے بڑھا دیں گے۔
اکاؤنٹنگ اور کنسلٹنگ فرم گرانٹ تھورنٹن کے چیف اکانومسٹ ڈیان سونک کہتے ہیں کہ"ہم 1990 کی دہائی سے غیر موجود افراط زر سے لڑ رہے ہیں اور اب ہم حقیقی مہنگائی سے لڑنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں ۔"
[یہ تحریر اے پی کی رپورٹ پر مبنی ہے]