امریکی انٹیلی جنس کے ایک ابتدئی اندازے کے مطابق ، طیارے کے جس حادثے میں روس کے نجی جنگجو گروپ واگنر کے لیڈر ییوگنی پریگوزن ممکنہ طور پر ہلاک ہوئے ، و ہ جان بوجھ کر کئے جانے والے دھماکے کا نتیجہ تھا۔باوجود اس کے کہ اس طیارہ حادثے کی ذمہ داری کے بارے میں تمام ممکنہ اندازے صدر پوٹن کی جانب اشارہ کرتے ہیں ، جمعرات کو صدر پوٹن نے جنگجو گروپ کے رہنما ییوگنی پریگوزن کو خراج تحسین پیش کیا۔
امریکی اور مغربی عہدیداروں میں سےایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ابتدائی انٹیلی جنس رپورٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا بہت امکان موجود ہے کہ ییوگنی پریگوزن کو نشانہ بنا یا گیا، اور یہ دھماکہ، روسی صدر ولادی میر پوٹن کی جانب سے اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کی تاریخ سے مماثلت رکھتا ہے۔
عہدیداروں نے اس دھماکے کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر پریگوزن اور ان کے متعدد نائبین بھی ہلاک ہوئے اور جو مبینہ طور پر اس بغاوت کا انتقام تھا جس کے ذریعے روسی لیڈر کے اقتدار کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی۔
امریکی محکمہ دفاع پنٹاگن کے ترجمان جنرل پیٹ رائیڈر نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کر دیا کہ طیارہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نے ہدف بنا کر گرایا۔ انہوں نے اس بارے میں بھی کچھ کہنے سے انکار کر دیا کہ آیا امریکہ کو یہ شبہ ہے کہ پریگوزن کا طیارہ کسی بم کے پھٹنے یا قتل کی کوشش کے نتیجے میں حادثے کا شکار ہوا۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ شبہ ظاہر کیا تھا کہ پوٹن اس طیارہ حادثے کے پس پردہ ہو سکتے ہیں۔گوکہ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ان کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں، جو ان کے شبے کی تصدیق کرتی ہوں ۔
'میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہوا، لیکن مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ روس میں ایسا بہت کم ہوتا ہے، جس کے پیچھے پوٹن کا ہاتھ نہ ہو'۔
دوسری طرف روسی صدر پوٹن نے طیارے کے حدثے میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں پہلی بار گفتگو کرتے ہوئے ان کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا اور پریگوزن کی "سنگین غلطیوں" کا حوالہ دیا۔
پوٹن نےپہلی مرتبہ اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طیارے کے مسافروں نے یوکرین کے خلاف جنگ میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔
ٹیلی ویژن پر یوکرین کے ڈونیٹسک کے جزوی مقبوضہ علاقے میں اپنے مقرر کردہ لیڈر ڈینس پش آئیلن کے ساتھ ایک انٹرویو میں روسی لیڈر نے کہا،" ہمیں یہ سب یاد ہے، ہم جانتے ہیں اور ہم اسے فراموش نہیں کریں گے۔"
پوٹن نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پریگوزن کو 1990 سے جانتے تھے۔ انہوں نے پریگوزن کو ایک ایسا شخص بتایا جس کی "قسمت دشوار تھی ۔"
انہوں نے کہا،" پریگوزن نے اپنی زندگی میں بہت سنگین غلطیاں کیں اور پھر نتائج بھگتے، اپنے لیے بھی اور اپنے مقصد کے لیے بھی جو گزشتہ چند ماہ میں ظاہر ہوئے۔ وہ ایک قابل شخص تھے۔۔ایک قابل بزنس مین۔"
واضح رہے کہ واگنر نامی فوجی کمپنی کے بانی پریگوزن اور چھ دیگر مسافر اور عملے کے تین افراد اس نجی جیٹ طیارے پر سوار تھے جو روسی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق بدھ کے روز ماسکو سے پرواز کے تھوڑی ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا۔
امدادی عملے کو دس افراد کی لاشیں ملیں اور روسی میڈیا نے واگنر میں نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ان کے مطابق پریگوزن ہلاک ہوگئے مگر اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اگر ان اموات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ واگنر گروپ کے لیے اب تک کا سب سے سنگین جھٹکہ ہوگا۔
مسافروں کی فہرست سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریگوزن کے ساتھ ان کے سیکنڈ ان کمانڈ ، واگنر کے لاجیسٹکس چیف، ایک جنگجو جو شام میں امریکی فضائی حملے میں زخمی بھی ہوا اور ایک محافظ طیارے میں سوار تھے۔
یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کہ واگنر کے چوٹی کے یہ عہدیدار ایک ہی ساتھ سفر کیوں کر رہے تھے جبکہ وہ عام طور پر اپنی سیکیورٹی کے بارے میں بے حد محتاط رہتے تھے اور نہ ہی سینٹ پیٹرز برگ کے ان کے اس مشترکہ سفر کی غرض و غایت کا علم ہو سکا ہے۔
حادثے پر ردِ عمل
پریگوزن کے حامیوں نے واگنر کے حامی میسیجنگ چینلز پر دعویٰ کیا کہ طیارہ جان بوجھ کر گرایا گیا۔
کریملن کی حامی "فئیر رشیا" نامی پارٹی اور روسی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے سابق چئیرمین سر گئی میرونوو نے ٹیلیگرام چینل پر لکھا کہ پریگوزن کو جان بوجھ کر ہلاک کیا گیا کیونکہ انہوں نے روس، یوکرین اور مغرب میں بہت لوگوں کے ساتھ معاملات خراب کیے۔
جرمنی کی وزیرِ خارجہ اینالینا بائیروک نے کہا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ اچانک پوری دنیا نے دیکھا کہ دو ماہ پہلے بغاوت کی کوشش کرنے والا پوٹن کا مصاحب اچانک آسمان سے زمین پر آرہا۔
انہوں نے کہا، " پوٹن کے روس میں ہم اس چلن کو جانتے ہیں۔۔۔ہلاکتیں اور مشتبہ خودکشیاں اچانک کھڑکی سے داخل ہوتی ہیں اور کبھی ان کی وضاحت نہیں ہو پاتی۔"
یو کرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے بھی کہا، " ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ سب سمجھتے ہیں ایسا کون کرتا ہے۔"
پریگوزن کی شہرت کا سفر
پریگوزن نے اپنی شہرت کرائے کے فوجیوں کے ایک بدنام اور ظالم لیڈر کے طور پر حاصل کی تھی۔ جون میں ان کے فوجیوں کی مسلح بغاوت کی کوشش روسی صدر ولادی میر پوٹن کے اقتدار کے خلاف ایک چونکا دینے والا جھٹکہ تھا۔
واگنر کے 62 سالہ لیڈر کا سفر انہیں ایک قیدی اور پھر ہاٹ ڈاگ کے وینڈر سے سینٹ پیٹرز برگ میں ریستوران کے مالک تک لے گیا اور پھر وہ پراپیگنڈہ جنگ اور آخرِ کار یوکرین کے پر پیچ جنگی میدانوں میں پہنچے۔
عالمی سطح پر روسی طاقت کے فروغ کے لیے ان کے کرائے کے فوجی افریقہ میں جنگی سرداروں کی حفاظت پر مامور ہوئے اور شام میں صدر بشار الاسد کا اقتدار بچانے کے لیے لڑتے رہے۔
مئی میں انہوں نے یو کرین کے شہر باخمت پر قبضہ کر لیا جو پوٹن کے لیے بڑی فتح تھی۔ مگر پھر پریگوزن کو روسی وزارتِ دفاع سے شکوے پیدا ہوئے کہ ان کے فوجیوں کو اسلحہ انہیں دیا جا رہا۔
جون کی 23تاریخ۔۔۔ ان کے فوجیوں نے یوکرین چھوڑ دیا اورروس کے جنوبی شہر راستوو آن ڈان میں فوجی ہیڈ کوارٹرز پر چڑھ دوڑے۔ پریگوزن نے انہیں ماسکو کی جانب بڑھنے کے لیے کہا۔
پریگوزن نے کہا، " یہ کوئی فوجی بغاوت نہیں بلکہ انصاف کا مارچ ہے" تاکہ وزیرِ دفاع سرگئی شوئیگو کو بر طرف کر دیا جائے۔
لیکن پھر بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کی مداخلت سے 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں ایک معاہدہ طے پا گیا۔
ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں پوٹن نے بغاوت کو " دھوکہ" اور "غداری" قرار دیا۔
لیکن معاہدے کے تحت پریگوزن اور ان کی فورسز کو آزاد چھوڑ دیا۔
لیکن جیسا کہ صدر پوٹن کی تقاریر کے سابق مصنف عباس گیلیاموو نے کہا، پریگوزن کو معاف کرنا اور ان کا یوں آزاد گھومنا ہی ، " دنیا کے سامنے پوٹن کے منہ پر خاک کی مانند تھا۔ اور تمام ممکنہ باغیوں اور تخریب کاروں کے لیے ایک کھلی دعوت تھی، چنانچہ پوٹن کو عملی طور پر کچھ تو کرنا ہی تھا۔"
( اس خبر میں مواد اے پی سے لیا گیا)
فورم