فردِ جرم میں 2014ء اور 2015ء کے دوران، وِٹ کے سابق شریک اہل کاروں کو ہدف بنائے جانے کے حوالے سے چار دیگر ایرانیوں کا بھی نام فاش کیا گیا ہے، جن پر سازش میں شریک ہونے، کمپیوٹر ہیکنگ اور شناخت کی چوری کے الزامات ہیں
امریکی فضائیہ کی ایک اہلکار جن کا تعلق جوابی انٹیلی جنس سے تھا اور چھ برس قبل منحرف ہو کر ایران چلی گئی تھیں، اُن پر ایرانی حکومت کے لیے جاسوسی کرنے اور دیگر انٹیلی جنس ایجنٹوں کو ہدف بنانے میں ایران کی مدد کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
انتالیس برس کی مونیکا لفرائیڈ وِٹ پر واشنگٹن کی ایک وفاقی گرینڈ جیوری نے فرد جرم عائد کیا ہے۔
اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے امریکی فوج کی جانب سےایرانی حکومت کےلیے خصوصی رسائی کے ایک پروگرام کا ’کوڈ نیم‘ اور صیغہٴ راز کے مقاصد اگل دیے تھے۔
بدھ کے روز فرد جرم کی مہربند دستاویز کھولے جانے پر معلوم ہوا کہ اُن پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنھوں نے اپنے سابقہ شریک کارکنان کو ہدف بنانے کے لیے ایرانی انٹیلی جنس اداروں کی مدد کی۔
فردِ جرم میں 2014ء اور 2015ء کے دوران، وِٹ کے سابق شریک اہل کاروں کو ہدف بنائے جانے کے حوالے سے چار دیگر ایرانیوں کا بھی نام فاش کیا گیا ہے، جن پر سازش میں شریک ہونے، کمپیوٹر ہیکنگ اور شناخت کی چوری کے الزامات ہیں۔
اِن چار افراد کی شناخت مجتبیٰ معصوم پور، بہزاد مصری، حسین پرور اور محمد پریار بتائی گئی ہے۔
وکلائے استغاثہ کے مطابق، یہ چار لوگ سماجی میڈیا پر نقلی اکاؤنٹ کے مالک تھے جب کہ وہ ایرانی پاسداران انقلاب کے لیے کام کیا کرتے تھے۔ وہ ’مال ویئر‘ نصب کرتے تھے، جس سے اُنھیں نشانہ بنائے گئے کمیوٹروں اور نیٹ ورکس تک خفیہ رسائی حاصل ہو جاتی تھی۔
قومی سلامتی کے نائب اٹارنی جنرل، جان ڈیمرز نے بتایا ہے کہ ’’اس مقدمے سے انٹیلی جنس کے ہمارے پیشہ ور افراد کو لاحق خطرات کی نشاندہی ہوتی ہے، اور ان خطرات کی شناخت، بے نقاب کیے جانے، ہدف بنانے، اور کچھ نایاب مقدمات کی طرز پر، بالآخر اس قوم کو ہدف بنانا شامل ہے جس کی حفاظت کا اُنھوں نے حلف لیا‘‘۔
ٹیکساس میں پیدا ہونے والی مونیکا وِٹ نے1997 سے 2008ء تک فضائی فوج کے لیے ’کاؤنٹر انٹیلی جنس افسر‘ اور 2008ء سے 2010ء تک کانٹریکٹر کے طور پر کام کیا۔